تحریر میں حوالہ ضروری ہے تو تقریر میں کیوں نہیں؟تحریر: ‏جاوید ‏اختر ‏بھارتی





تحریر میں حوالہ ضروری ہے تو تقریر میں کیوں نہیں؟
از قلم: جاوید اختر بھارتی 
اللہ کا شکر ہے کہ اب بڑی تعداد میں قلمکار مضمون نگار نظر آتے ہیں جن کی تحریریں اخباروں کے صفحات پر جگمگاتی ہیں اور ان میں زیادہ تر ایسے لوگ ہیں جنہیں اجرت کی خواہش نہیں ہوتی بس شائع ہو جانے پر اس بات کا احساس ہوجاتاہے کہ محنت وصول ہو گئی اور دعا بھی رہتی ہے کہ ائے االلہ ہماری تحریروں کو عالم انسانیت کے لئے نفع بخش بنا،، 
کتابیں تو ہر دور میں چھپی ہیں مگر اخبار ہر دور میں شائع نہیں ہوتے تھے اور قلمکاروں کی تعداد بھی کچھ زیادہ نہیں تھی مگر آج تو الحمدللہ بہت سارے اردو اخبارات شائع ہورہے ہیں اور بہت سارے مضمون نگار بھی نظر آتے ہیں اللہ سبھی مضمون نگاروں کو عمر دراز عطا فرمائے اور حق و صداقت کی آواز کو بلند کرنے کے ساتھ ہی ساتھ معاشرے کی اصلاح کے لئے بھی قلم چلانے کی توفیق عطا فرمائے، اتحاد و اتفاق کا پیغام دینے اور باطل رسم و رواج اور مکر و فریب کی مخالفت میں بھی قلم چلانے کی طاقت اور حوصلہ عطا فرمائے یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ آج بھی بغض و کینہ رکھنے والوں کی کمی نہیں ہے اور صرف سیاسی اندھ بھکتی نہیں بلکہ مذہب کی بنیاد پر بھی اندھ بھکتی کے شکار لوگوں کی کمی نہیں ہے،، ایک طرف کچھ لوگ مضامین چوری کرتے ہیں تو دوسری طرف کچھ لوگ مضمون نگاروں سے واقعات اور مثالیں و روایات کا ثبوت اور حوالہ مانگتے ہیں یہی نہیں بلکہ مضمون نگار رابطہ نمبر اس لئے دیتے ہیں تاکہ اخباروں کے دفاتر میں نمبر محفوظ رہے وہ اس لئے کہ بوقت ضرورت اخباروں کے اڈیٹر صاحبان و ذمہ داران کو کسی بھی مضمون نگار سے رابطہ کرنا رہے تو کرلیں کیونکہ بہت سے مضمون نگار ایسے بھی ہیں کہ جو دوسروں کی ای میل آئی ڈی سے مضامین میل کرتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ جہاں کچھ لوگ فون کرکے حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور دعائیں دیتے ہیں وہیں کچھ لوگ گالیاں بھی دیتے ہیں اس لئے بہتر یہ ہے کہ اخباروں کے اڈیٹر صاحبان و ذمہ داران مضمون نگاروں کے موبائل نمبر شائع نہ کیا کریں تو بہتر ہوگا اللہ کریم تمام اخباروں کو دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے اور ایڈیٹر صاحبان و ذمہ داران کو سلامت رکھے آمین- 
پورے ملک میں جلسے ہوتے رہتے ہیں علماء کرام واقعات اور مثالیں پیش کرتے ہیں اور ہم سنتے ہیں ہمیں بات سمجھ میں آتی ہے تو بھی سنتے ہیں اور فصاحت و بلاغت میں ڈوبی ہوئی بات ہمارے سروں سے اڑجاتی ہے تب بھی سنتے ہیں لیکن ہم ان سے حوالہ نہیں مانگتے ثبوت نہیں مانگتے،، اور انہیں علماء کرام و مقررین عظام کی باتوں میں سے کسی ایک بات اور واقعے کو مضامین میں ذکر کردیا جائے تو حوالہ مانگا جانے لگتا ہے خود میرے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے اور میرے تعلقات کے بہت سے ایسے مضمون نگار جو اللہ کی رحمت سے صحافت اور خطابت دونوں میدان میں مہارت رکھتے ہیں ان لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہوچکا ہے اور وہی لوگ جب تقریریں کرتے ہیں تو کوئی حوالہ نہیں مانگتا اور کوئی ثبوت اور دلیل نہیں مانگتا اسی وجہ سے یہ سوال کیا جارہا ہے کہ جب مقررین سے حوالہ نہیں مانگا جاتا تو پھر مضمون نگاروں سے حوالہ کیوں مانگا جاتا ہے اور اسی لئے اس مضمون کو یہی عنوان دیا گیا ہے کہ تحریر میں حوالہ چاہیے تو تقریر میں کیوں نہیں؟ 
اس سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ شاید ذہن میں یہ بات ہے کہ ایک عالم جو بیان کرے اسے سنو کیونکہ وہ عالم ہے غلط بول ہی نہیں سکتا یاکہ ہم سوال کریں گے اور حوالہ مانگیں گے تو مجمع میں ہماری رسوائی ہو سکتی ہے تو آپ کو اپنی رسوائی کا خوف و فکر ہے، اپنی عزت کی پرواہ ہے مگر ایک مضمون نگار کی عزت کی فکر نہیں ہے، اس کے جذبات مجروح ہوں گے اس کی فکر نہیں ہے،، اگر آپ کسی مقرر سے حوالہ و ثبوت اور دلائل نہیں مانگتے ہیں تو آپ کو ایک مضمون نگار سے بھی حوالہ اور ثبوت نہیں مانگنا چاہئیے کیونکہ ایک مضمون نگار کا مقصد کسی مکتب فکر کے لوگوں کو ٹھیس پہنچانا نہیں ہوتا، آنکھیں بند کرکے کسی کی تعریف کرنا نہیں ہوتا بلکہ ایک مضمون کی تحریر کا مقصد آئینہ دکھانا ہوتاہے اور یہ سوچ بھی رکھنا غلط ہے کہ وہ فلاں صاحب ہیں ان کی بات غلط ہو ہی نہیں سکتی یا وہ فلاں صاحب ہیں ہم ان کی بات مان ہی نہیں سکتے،، حقیقت یہ ہے کہ اچھی بات جہاں سے ملے اسے لے لینا چاہیے اور نیت صاف رکھنا چاہیے کیونکہ نیت بہت اہم چیز ہے بلکہ عمل کا دارومدار نیت پر ہے- 
میرے گذشتہ مضمون پر بڑی تعداد میں جہاں سبھی مکتب فکر کے علماء کرام، صحافی، دانشور اور سیاسی و سماجی شخصیات نے فون کرکے حوصلہ افزائی کی اور دعائیں دیں وہیں ایک صاحب نے ممبئی سے بڑی جارہانہ تنقید کی اور وہ اپنی بات ایسے کہہ رہے تھے گویا اہلسنت والجماعت ہونے کی سرٹیفکیٹ تقسیم کررہے ہیں اور ان کے پاس کوئی ایسا رجسٹر ہے جس میں نام درج کرائے بغیر کوئی اہلسنت والجماعت کا آدمی ہوہی نہیں سکتا کچھ تلخ کلامی بھی ہوئی لیکن میں نے صاف لفظوں میں کہا کہ محترم آپ اپنا نظریہ اور اپنی اندھی عقیدت اپنے پاس رکھئیے یہ آپ ہی کو مبارک ہو-
ایک دوسرے محترم نے فون کرکے میری اصلاح کرنے کی کوشش کی میں نے خیر مقدم کیا ان سے بہت ساری باتیں ہوئیں وہ بڑے مخلص بھی لگے ان کو میرے مضمون کی ایک عبارت پر اعتراض تھا تو میں نے کہا کہ یہ بارہا میں نے علماء کرام کی زبانی سنا ہے،، بہر حال،، انہوں نے کہا کہ آپ استغفار پڑھئیے اور کلمہ پڑھئیے میں نے استغفار بھی پڑھا اور کلمہ بھی پڑھا میں نے ان سے کہا کہ حضرت میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں کہ غلطی ہوجانے پر تسلیم نہ کروں، ان لوگوں میں سے بھی نہیں ہوں کہ کوئی کلمہ پڑھنے کے لئے کہے تو نہ پڑھوں نہیں ہرگز نہیں بلکہ میں تو دعا کرتا ہوں کہ اللہ ربّ العالمین مجھے ہردم استغفار اور کلمہ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور آخری وقت میں بھی جب ملک الموت سامنے یا سراہنے ہو تب اللہ تبارک وتعالیٰ میرے دل اور میری زبان پر کلمۂ حق جاری کرے اور خاتمہ بالخیر فرمائے آمین
«تنقیدی پہلو» 
تنقید برائے تنقید سے معاملہ خراب ہوتا ہے اور بات آگے بڑھ جاتی ہے ، ضد اور اپنی بات پر اڑے رہنے والی عادت ہو جاتی ہے دنوں فریق بال کی کھال نکالنے پر تل جاتے ہیں پھر یہ بات بھی آسکتی ہے کہ بہت سے مسائل پر علماء و ائمہ کا اختلاف ہے وہاں پر یہ بھی سوال اٹھ سکتا ہے کہ کچھ چیزیں کسی کے نزدیک جائز تو کسی کے نزدیک نا جائز، کسی کے نزدیک مکروہ تو کسی کے نزدیک صحیح اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نہیں کہ ناجائز کام کرنے پر گناہ ہے تو کیا گناہوں کا رجسٹر بھی مسلکی اور مکتب فکر کی بنیاد پر ہے یا ہوگا؟ لیکن تنقید برائے اصلاح سے معاملہ اچھا ہوتا ہے لیکن کوئی شخص یہ کہے کہ تحریر میں حوالہ ضروری ہے تقریر میں نہیں تو آخر کیوں؟ جواب دینے والوں نے جواب دیا کہ تحریر دستاویز ہوا کرتی ہے اس لئے حوالہ ضروری ہے اور تقریر تو بس تقریر ہے،، واہ تحریر دستاویز ہوا کرتی ہے اس لئے حوالہ ضروری ہے اور تقریر میں نہیں اس کا مطلب کہ کچھ لوگوں کے نزدیک تقریر میں لفاظی کی گنجائش ہے اسی لئے کچھ مقررین لطیفے اور چٹکلے بھی سنایا کرتے ہیں اور بغیر صفحے کی باتیں بھی بیان کرتے ہیں اور عوام کے مزاج کے مطابق اپنے کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ کل تبصرہ ہوتا رہے کہ وہ فلاں مقرر خوب بولے خوب بولے طبیعت مست ہوگئی- 
بدلو اپنی سوچ بدلو جب آج دینی اجلاس کے اسٹیج کو منبر رسول کا نام دیا جاتا ہے تہ اس کا تقدس پامال نہیں ہوناچاہیے اور بالکل واضح ہے کہ منبر رسول سے عوام کے مزاج کے مطابق تقریر کرنے والا نام و نمود، دولت و شہرت کا بھوکا ہے اور جو دولت و شہرت، نام و نمود کا لالچی نہیں ہوتا ہے وہ عوام کے مزاج کے مطابق نہیں بلکہ شریعت کے مزاج کے مطابق تقریر کرتا ہے اور شریعت کے مزاج کے مطابق ہی تقریر کرنا حق ہے برحق ہے -
javedbharti508@gmail.com 
Javed Akhtar Bharti 
              ---------------------------------------------- 
عالی وقار ایڈیٹر محترم سابقہ مضامین کی اشاعت کے شکرئیے کے ساتھ جدید مضمون شائع کرنے کی مؤدبانہ گزارش ہے فقط والسلام 
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) 
محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی  





Comments

Popular posts from this blog

شیخ الحدیث علامہ محمد سلیمان شمسی رحمۃ اللہ علیہ ایک مایہ ناز ہستی! تحریر* جاوید اختر بھارتی

حج عبادت بھی، رکن اسلام بھی، اور پیغام اتحاد و مساوات بھی!!! تحریر: جاوید اختر بھارتی

ضمیر کا دخل بہت بڑی چیز ہے تحریر! جاوید:اختر بھارتی