حق رائے دہی کا استعمال ضرور کریں! تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاوید اختر بھارتی



حق رائے دہی کا استعمال ضرور کریں!
تحریر: جاوید اختر بھارتی
javedbharti508@gmail.com
انسان اگر صرف اپنے لئے جئیے مرے تو پھر وہ خود غرض ہے اس میں اور جانور میں کوئی فرق نہیں،، اس لئے ضروری ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے کام آئے اور قوم کی خدمت بہترین عمل ہے چاہے وہ انفرادی طور پر کی جائے یا اجتماعی طور پر، یا کوئی پلیٹ فارم بناکر خدمات انجام دی جائے یا تنہا تنہا،، یاد رکھیں کہ ایک انسان جتنا زیادہ قدآور ہوتا ہے اور وہ جتنا زیادہ خوشحال ہوتا ہے اتنا ہی اس سے عزیز واقارب، پڑوسی اور سماج و گاؤں کے لوگوں کو امیدیں بھی وابستہ ہوتی ہیں- ممبر پارلیمنٹ ہو ممبر اسمبلی، بلاک پرمکھ ہو یا پردھان، چئیرمین ہو یا نگر پنچایت کا ممبر کام سب کا یہی ہے کہ قوم کی خدمت کریں، عوام کے سکھ اور دکھ میں برابر کے شریک ہوں، بے سہاروں کا سہارا بنیں، غریبوں کی مدد کریں اور حکومت کی جو مراعات و سہولیات اور اسکیمیں ہیں اسے عوام کو مہیا کرانے میں اہم کردار ادا کریں تاکہ عوام کسی بھی سہولت سے محروم نہ رہے-
نگر پنچایت کا ذمہ دار چئیرمین کہلاتا ہے اور وارڈ کا ذمہ دار ممبر کہلاتا ہے یعنی نگر پنچایت کا ممبر خود اپنے محدود علاقے پر نظر دوڑائے کہ صاف صفائی ہورہی ہے کہ نہیں، کہیں گندگی کا انبار تو نہیں ہے، کہیں نالیاں جام تو نہیں ہے، کہیں محلے کے راستے میں گڈھے تو نہیں ہیں، لوگوں کے چلنے پھرنے میں مشکلات کا سامنا تو نہیں نہ کرنا پڑتا ہے ان تمام چیزوں پر نظر رکھنا نگر پنچایت کے وارڈ ممبر کی ذمہ داری ہے اور مذکورہ معاملات سے چئیرمین کو روشناس کرانے کی ذمہ داری بھی ایک ممبر کی ہی ہے یعنی ایک ممبر سے لے کر چئیرمین تک کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ عوام نے ہمارے اوپر اعتماد کیا ہے ہمیں اپنا نمائندہ تسلیم کیا ہے ہم سے بڑی امیدیں وابستہ رکھی ہیں تو گویا عوام کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے، عوام بدظن نہ ہو- 
صاف صفائی پر توجہ مرکوز رکھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ گندگی کی وجہ سے کوئی بیماری نہ پھیلے- 
یہ ہیں ذمہ داریاں نگرپنچایت کے چئیرمین اور ممبران کی،، مگر افسوس صد افسوس کہ آج کوئی چھوٹا منصب ہو یابڑا جو اس پر فائز ہوجاتا ہے وہ اپنے آپ کو عوام سے بہت بلند سمجھتا ہے کوئی شخص اپنی فریاد لے کر پہنچتا ہے تو اسے اتنی حقیر نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے کہ دوبارہ ضرورت پڑنے پر اس کے اندر ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے ممبر سے کسی چیز کا مطالبہ کرے، کوئی مشورہ دے یہ بھی یاد رکھیں کہ سروس یعنی ملازمت الگ ہے اور سیاست الگ ہے یوں تو افسران بھی عوام کی خدمات انجام دینے کے لئے ہی ہوتے ہیں مگر وہ عوام کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں مگر ایک وارڈ کے ممبر سے لے کر پارلیمنٹ کے ممبر تک، چئیرمین سے لے کر چیف منسٹر تک اور پردھان سے لے کر پردھان منتری تک عوام کے سامنے جوابدہ ہیں عوام کو پورا پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے نمائندوں سے سوال وجواب کرے، حمایت و مخالفت کرے، تنقید و تعریف کرے مگر مقصد مفاد عامہ ہونا چاہئے، تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ تنقید برائے تعمیر و تنقید برائے اصلاح ہونی چاہئے اس سے بغض و حسد کو جگہ نہیں ملتی اور ظاہر بات ہے جب بغض نہیں ہوگا، حسد و کینہ نہیں ہوگا تو سب مل کر کام کریں گے اور جب سب مل کر کام کریں گے تو پورا نگر پورا شہر روشن ہوگا اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہوگا کل ملا کر ہر ایک کے اندر سماج، معاشرہ، سوسائٹی، ملک و قوم کو مضبوط کرنے کا جذبہ ہونا چاہئے اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے- 
اترپردیش میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے تحت 4 مئی جمعرات کے روز پہلے مرحلہ کے تحت پولنگ ہوچکی ہے،، دوسرے مرحلے کی پولنگ 11 مئی کو ہونی ہے ہر شخص امن و شانتی کا ماحول بنانے میں تعاون کرے اور بے خوف ہو کر اپنے ووٹ کا استعمال کرے، جمہوریت کو بچانے اور مضبوط کرنے کے لیے منصفانہ طورپر انتخابات کا ہونا بہت ضروری ہے۔

 اس وقت اترپردیش میں شہری انتخابات ہورہے ہیں اسلئے سبھی لوگ امن وشانتی کا ماحول بنائیں اور ہر ووٹر بے خوف ہوکر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرے۔ کیونکہ سیکولرازم کو بچانے کے لیے منصفانہ انتخابات بہت ضروری ہیں۔ حکومت و انتظامیہ بھی مسلسل اپیلیں کر رہی ہے اور ایسے انتظامات کر رہی ہے کہ ہر ووٹر بلا خوفہ ہوکر آسانی کے ساتھ اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکےں، اس لیے سبھی لوگ امن کی فضا کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کریں اور ماحول پرامن بنائے رکھنے میں تعاون کریں، کسی قسم کے اور کسی شخص کے بہکاوے میں نہ آئیں، ملک کے سیکولرازم کو زندہ رکھنے کے لیے عوام اپنے ووٹ کا صحیح استعمال پرامن طریقے سے کرے، یہ الگ بات ہے کہ کون جیتتا ہے اور کون ہارتا ہے،،ہمارا اس سے کوئی لینا دینا رہے یا نہ رہے لیکن ماحول کا پرامن رہنا بہت ضروری ہے اور انتظامیہ بھی یہی چاہتی ہے اس لئے امید بھی ہے اور یقین بھی ہے کہ انتظامیہ ماحول کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ منصفانہ انتخابات کرائے گی۔ کتنے نادان ہیں وہ لوگ جو ایک شیشی کے بدلے میں ووٹ دیتے ہیں، سو روپے پانچ سو روپے لے کر ووٹ دیتے ہیں ارے ایک ووٹ کی قیمت کیا ہوتی ہے یہ جاکر کوئی سابق وزیر اعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپئی کی سمادھی پر کھڑا ہوکر پوچھے، آنجہانی ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی آتما سے پوچھے تب معلوم ہوگا کہ ایک ووٹ کی قیمت تو کوئی سات جنم میں بھی ادا نہیں کر سکتا،، اس لئے ووٹ کی اہمیت اور قیمت کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور جو شخص ووٹ کی اہمیت سمجھ جائے گا تو وہ ووٹ بیچنے سے باز آجائے گا، ووٹوں سے حکمت عملی تیار ہوتی ہے، ووٹوں سے مستقبل سنورتا ہے، ووٹوں سے حکومت بنتی ہے اور حکمرانی حاصل ہوتی ہے-
javedbharti508@gmail.com
      +++++++++++++++++++++++++++++++
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی 



Comments

Popular posts from this blog

یوپی الیکشن: پھر لفظ سیکولر گونجنے لگا! تحریر: ‏جاوید ‏اختر ‏بھارتی

ہمارے لیے علم سرمایہ ہے اور علم دین عظیم سرمایہ ہے

میدان کربلا اور شہادت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! تحریر: جاوید اختر بھارتی