عقل مندوں کی بھیڑ ،، دردمندوں کا فقدان !!تحریر: جاوید اختر بھارتی



عقل مندوں کی بھیڑ,, دردمندوں کا فقدان !
تحریر: جاوید اختر بھارتی
بڑا آسان ہے یہ کہنا کہ میں ہوں نا ، گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اور گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے یہ بات اکثر وبیشتر بھرے مجمع میں کہی جاتی ہے اور واہ واہی لوٹی جاتی ہے جم غفیر میں سرخروئی حاصل کی جاتی ہے اور عموماً جیسے ہی بھیڑ منتشر ہوتی ہے اور سب لوگ اپنے اپنے گھروں کے لئے روانہ ہوتے ہیں تو وہ شخص بھی چل دیتا ہے جس نے بھرے مجمع میں تسلی دی تھی، ڈھارس بندھائی تھی اور اطمینان دلایا تھا اور جسے تسلی دی تھی وہ دیکھتے ہی دیکھتے اکیلا رہ جاتاہے آنکھوں میں آنسو بھر جاتے ہیں کہ ابھی تو تسلی دینے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا یہ تو بالکل وہی بات ہوئی کہ شیشے کے بے شمار ٹکڑوں کو اٹھاکر دیکھا ہے تو ہر ایک ٹکڑےمیں وہ تنہا نظر آتا ہے بس وہ سمجھ جاتا ہے کہ ابھی جو کچھ ہوا وہ صرف ایک رسم تھی ایک رواج ہے اب جو کچھ کرنا ہے وہ اپنے بل بوتے پر ہی کرنا ہے شائد وہ کوئی اور مقام ہوگا کچھ مواقع یا مقاصد ہوں گے کہ کہا جاتا ہے کہ میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر ،، لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا ،، یہاں تو کارواں ہی چلا گیا اور میں اکیلا ہی رہ گیا اب زمانہ بدل چکا ہے لوگ عملی طور پر نہیں بلکہ ہمدردی اور تسلی کے نام پر صرف زبانی خرچ سے کام چلاتے ہیں اور عملی طور پر کمزوروں کا حق مارا کرتے ہیں ، مزدوروں کی مزدوری گھٹایا کرتے ہیں ، غربت کا مزاق اڑایا کرتے ہیں،، تعلیم تو یہ دی گئی ہے کہ کھانا بناؤ تو شوربا بڑھالو، روٹی پکاؤ تو سائز چھوٹی کرکے تعداد بڑھالو ، کوئی بیمار ہو تو اس کی عیادت کے لئے جاؤ کوئی پریشان حال ہو تو اس کا مالی تعاؤن کرو مگر افسوس کہ یہ ساری چیزیں اور ساری باتیں تقریر و تحریر تک محدود ہوگئیں نتیجہ یہ ہوا کہ آج جو شخص سو کلوآلو کی بوری اپنی پیٹھ یا کاندھے پر اٹھاتا ہے وہ خرید نہیں سکتا اور جو سو کلوآلو کی بوری خرید سکتا ہے وہ کاندھے پر اٹھا نہیں سکتا یعنی کہیں غربت و مجبوری کا مسلہ ہے تو کہیں نفاست اور نزاکت و دولت کی فراوانی کا مسلہ ہے چہار جانب نمائش اور نام و نمود کے پیچھے لوگ بھاگ رہے ہیں اشتہار میں نام امیر کا ، دیوار پہ نام امیر کا یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ سب اللہ کے بندے ہیں اور امیر و غریب دونوں انسان ہیں دونوں اللہ کے بندے ہیں اور احساس ہی نہ ہونے کی وجہ سے بھلے ہی چاند پر زمین خریدنے کی بات کی جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں تو آج تک زمین پر بھی زندگی گزارنے کا سلیقہ نہیں ایا بات بات میں غریبوں اور کمزوروں کو کہا جاتا ہے کہ تم محنت نہیں کرتے دولت کی فراوانی کے بعد اسے یہ بھی احساس نہیں ہوتا ہے کہ ہاتھ پیر چلانا اپنی جگہ ، رزق تلاش کرنا اپنی جگہ لیکن اس میں تقدیر کا بھی دخل ہے ورنہ صبح سے شام تک پتھر کون توڑتا ہے ، مکان تعمیر ہوتا ہے تو محنت کون کرتا ہے، بجلی، پانی، سڑک کی تعمیر و مرمت اور ترتیب میں محنت کون کرتا ہے ، دھوپ کے تھپیڑے کون کھاتا ہے ، گرمی میں پیشانی سے ایڑی تک پسینہ کون بہاتا ہے ، سردی کے موسم میں کھیت کھلیانوں میں فصلوں کی کوڑائی، بوائی، روپائی کرتے ہوئے گن گن گن گن کون کانپتا ہے ، آج بھی فٹپاتھ پر اخبار بچھا کر کون سوتا ہے ان تمام سوالوں کا جواب کون دے گا اگر محنت ہی شرط ہے انسان کو دولت مند ہونے کے لئے تو آج تک پتھر پر ہتھوڑا مارنے والا دولت مند کیوں نہیں ہوا؟ آلو کی چپس بنانے والا امیر و دولت مند ہوگیا تو کھیتوں میں آلو اگانے والا دولت مند کیوں نہیں ہوا؟ جب ان تمام حالات پر سنجیدگی سے غور کریں گے تو بات سمجھ میں آئے گی کہ تدبیر اور تقدیر دونوں کا انسان کی زندگی میں بہت بڑا عمل دخل ہے،، اور اس کے باوجود بھی جسے سمجھ میں نہ آئے تو اسی کو گھمنڈی کہا جاتا ہے کہ اسے اپنی دولت کی فراوانی پر گھمنڈ ہے اور وہ غریبوں کو کیڑا مکوڑا سمجھتا ہے لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ قارون کے پاس بھی خزانہ تھا ، شداد کے پاس بھی خزانہ تھا دونوں کو دولت و خزانے کا ایسا خمار چڑھا کہ خدائی کا دعویٰ کربیٹھے ،، اللہ رب العالمین نے ایک آن میں ایک کو زمین میں خزانہ سمیت دھنسا دیا اور دوسرے کو اس کی بنوائی ہوئی جنت کی چوکھٹ پر موت کے گھاٹ اتار دیا،، اسی لئے کسی شاعر نے کہا ہے کہ سنسار میں باجے ڈھول ، یہ دنیا میری طرح ہے گول،، کہ پیسہ بولتا ہے،، قارون نے مجہکو پوجا تھا ، فرعون بھی میرا شیداتھا، شداد کی جنت مجھ سے بنی، نمرود کی طاقت مجھ سے بڑھی جب چڑھ گیا میرا خمار ،، خدا کے ہوگئے دعویدار،، کہ پیسہ بولتا ہے لیکن گھمنڈ ، غرور اور تکبر کا انجام بھگتنا پڑا ،، اس لئے نہ طاقت پر اترائیں نہ دولت پر اترائیں کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ چھپر پھاڑ دینے پر قادر ہے تو چمڑی ادھیڑنے پر بھی قادر ہے
مرنے کے بعد تو سب کاندھا دیتے ہیں ارے جیتے جی کسی کو کاندھا دو تو بات بنے ،، کسی کو تنہا نہ چھوڑ و، تعلقات میں حسن و دولت کو آڑے نہ آنے دو ،، ورنہ تعلقات میں بھی جسموں کی نمائش کریں گے اور امیری غریبی کا احساس دلائیں گے تو اس کے جذبات مجروح ہوں گے پھر تو وہ یہی کہے گا کہ نہ ہو کوئی بیٹا تو زندگی میں اندھیرا ہے اور آگے یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میرے پاس سے گزر کر میرا حال تک نہ پوچھا ،، میں یہ کیسے مان جاؤں کہ وہ دور جاکے رویا ،،بلکہ جس کا ساتھ پکڑو تو پاکیزگی کا خیال رہے، سچائی پر مبنی تعلقات کی بنیاد ہو تاکہ وہ کہہ سکے کہ زندگی کی راہوں میں رنج وغم کے میلے ہیں ، گھبرانے کی بات نہیں کہاں ہم اکیلے ہیں،، ورنہ پھر وہ یہی کہے گا کہ غریب ہونے کی وجہ سے میں بھلایا بھی جاتا ہوں، ٹھکرایا بھی جاتا ہوں ،، ہائے رے میری قسمت،، میرے پاس بھی پیسہ ہوتا تو لوگ مجھ سے بھی ملتے اور میری باتوں کو لوگ ٹھوس سمجھتے مگر ہائے افسوس! بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے ،، ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے- 
javedbharti508@gmail.com 
      +++++++++++++++++++++++++++
جاوید اختر بھارتی سابق ( سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی 

Comments

Popular posts from this blog

شیخ الحدیث علامہ محمد سلیمان شمسی رحمۃ اللہ علیہ ایک مایہ ناز ہستی! تحریر* جاوید اختر بھارتی

حج عبادت بھی، رکن اسلام بھی، اور پیغام اتحاد و مساوات بھی!!! تحریر: جاوید اختر بھارتی

ضمیر کا دخل بہت بڑی چیز ہے تحریر! جاوید:اختر بھارتی