نقصانات و فوائد پر نظر رکھنا ضروری ہے!/ رام مندر کا افتتاح اور معزز شخصیات کا مشورہ !تحریر: جاوید اختر بھارتی

رام مندر کا افتتاح اور معزز شخصیات کا مشورہ!
تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاوید اختر بھارتی
javedbharti508@gmail.com
یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ مضامین لکھنے والوں کی تعداد میں ادھر کچھ دنوں سے بہت اضافہ ہوا ہے اللہ کرے کہ مزید اضافہ ہو اور لوگ دینی، سیاسی، سماجی ہر طرح کے مضامین لکھیں حالات حاضرہ کے تناظر میں بھی قلم چلائیں معاشرے میں پنپ رہی ناقص رسم ورواج اور خرافات پر بھی اظہار خیال کریں نوجوانوں کی بے راہ روی پر قلم کو جنبش دیں اور کچھ لوگ جو مقدس مقامات کو آلہ کار بناکر دین کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش کررہےہیں اس پر بھی توجہ مرکوز کریں اور اپنی تحریروں میں یہ نظریات بھی واضح کریں کہ ہماری ذاتی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے بلکہ ہم آئینہ دیکھا رہے ہیں تا کہ ایک صاف شفاف معاشرہ تشکیل پاسکے کیونکہ ہر انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی زبان اور قلم سے یعنی تقریر و تحریر سے دوسرے انسان کو امانت دارانہ مشورہ دیے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ خیانت کی راہ پر لگنے والا مشورہ دینا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے -
دوسری بات یہ بھی ذہن نشین ہونا چاہیے کہ قلم چلایا جائے تو اس کے فوائد اور نقصانات اور امکانات پر بھی نظر رکھا جائے تاکہ جس زمرے میں مضامین لکھا جائے اس زمرے میں مضامین نفع بخش ثابت ہوں ،، راقم الحروف کا مقصد کسی کو تنقید کا نشانہ بنانا نہیں ہر مضمون نگار قابل قدر ہے مگر جیسے آج بہت سے لوگ مضامین لکھ رہے ہیں تو رام مندر کی افتتاحی تقریب سے متعلق اظہار خیال کررہےہیں کہ رام بڑے یا مودی ،، ایودھیا میں رام کم مودی زیادہ نظر آرہے ہیں ،،رام مندر کا افتتاح وزیراعظم کے ہاتھوں ہونا چاہئے یا ہندو مذہب کے رہنما سادھو سنتوں کے ہاتھوں ہونا چاہئے ،، کیا اس طرح کی تحریر بے مقصد نہیں ہے ؟ رام بڑے یا مودی ،، اس سے مسلمانوں کو کیا مطلب ،، رام مندر کا افتتاح کن کے ہاتھوں ہونا چاہئے اس سے بھی کوئی مطلب نہیں ہونا چاہئے ،، آپ بابری مسجد کی تاریخ لکھئے ، ایک مسجد کی کیا اہمیت ہوتی ہے یہ لکھئے بابری مسجد سے متعلق ،اس کے تنازعات سے متعلق ، اس میں نماز پڑھنے پر پابندی سے متعلق ، اس کی شہادت سے متعلق اس کے ذرے ذرے اور ایک ایک نکات سے متعلق لکھئے اور خوب لکھئے تاکہ آنے والی نسلیں بھی بابری مسجد سے باخبر رہیں ،، رام مندر کے بارے میں اتنا ہی لکھنا کافی ہے کہ یہاں پہلے مسجد تھی اور مسجد کو منہدم کردیا گیا اور اس جگہ پر مندر تعمیر کیا گیا باقی رام مندر سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں ہونا چاہئے ،، یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ میڈیا کے لوگ علماء کرام کو نشانے پر لینا چاہتے ہیں ان کا ایک پروگرام ہے کہ اگر آپ کو رام مندر کے افتتاح میں بلایا جائے تو آپ کیا کریں گے ، آپ کو رام مندر کی تعمیر و افتتاحی تقریب سے خوشی ہے کہ نہیں ،، اس معاملے میں سوشل میڈیا پر ایک عظیم صحافی ودود ساجد صاحب نے بہت ہی گراں قدر مشورہ دیتے ہوئے علماء کرام و مسلم رہنماؤں سے اپیل کی ہے کہ آپ ڈیبیٹ میں نہ جائیں بلکہ اس معاملے میں میڈیا سے دوری بنائے رکھیں اسی میں بہتری ہے،، تمام قلمکاروں کو بھی ایسا ہی نیک مشورہ دینا چائیے کیونکہ میڈیا کا ایک طبقہ ایسا ہے جو اپنی زبان اور قلم کا سودا کرچکا ہے اس سے ہوشیار رہنا اور بچنا ہر حال میں ضروری ہے- 
بعض لوگ کہتے ہیں کہ قلم کا تعلق تعلیم سے ہوتا ہے اس سے انکار نہیں کیونکہ جو تعلیم کے معاملے میں صفر ہو علم سے نابلد ہو وہ قلم کی حقیقت کو کیا جانے لیکن آج کے دور میں جو صورتحال ہے تو اس میں چھن کر یہ سچائی بھی سامنے آتی ہے کہ قلم کا تعلق صرف تعلیم سے نہیں بلکہ ضمیر سے بھی ہے کیونکہ قلم کا تعلق صرف تعلیم سے ہوتا تو میڈیا کا وقار مجروح نہیں ہوا ہوتا قلم گروی نہیں رکھا گیا ہوتا زمانہ بڑی تیزی سے کروٹیں بدل رہا ہے کل تک جاہل اندھ بھگت ہوتے تھے اور آج تعلیم یافتہ لوگ بھی اندھ بھگتوں میں شامل ہورہے ہیں اس لئے خوب ناپ تول کر لکھا اور بولا جانا چاہئے،،
رام مندر کا افتتاح وزیراعظم کو نہیں کرنا چاہئیے ، کیا مودی جی شنکر آچاریوں سے بڑھ کر ہیں اور سنگھ پریوار و شنکر آچاریوں میں اختلاف کیوں وغیرہ وغیرہ ،، اس طرح کے عنوانات پر مشتمل مضامین سے کچھ فائدہ ہونے والا نہیں یہ تو جس کا مسلہ ہے وہ خود جانے خود سمجھے ،، یقیناً نریندر مودی جی بھارت کے وزیر اعظم ہیں لیکن ساتھ ہی وہ بی جے پی کے لیڈر بھی ہیں اور پورا ملک جانتا ہے کہ بی جے پی بابری مسجد اور رام مندر پر سیاست کرکے ہی اقتدار میں آئی ہے ورنہ بابری مسجد کا تنازعہ تو کانگریس کے دور حکومت میں پیدا ہوا ہے ، تالا کانگریس کے دور حکومت میں لگایا گیا اور کھلوایا گیا ہے ، نماز ادا کرنے پر پابندی اور پوجا پاٹ کرنے کی اجازت کانگریس کے دور حکومت میں دی گئی ہے حتیٰ کہ بابری مسجد کی شہادت بھی اس وقت ہوئی ہے جب مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی کل ملاکر دیکھا جائے تو کانگریس نے بابری مسجد اور رام مندر کا معاملہ الجھایا اور بی جے پی نے اسے بھنایا ،، کانگریس کی نیت صاف رہی ہوتی تو 1949 سے 1992 کے درمیان اس مسلے کو حل کرسکتی تھی بلکہ ابتدا میں ہی حل کرسکتی تھی مگر کانگریس نے ایسا نہیں کیا اور سیکولر ازم کا دھڈورا پیٹتی رہی اور آج کانگریس اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اسے کوئی ٹھوس اور صحیح راستہ نہیں مل رہا ہے یہاں تک کہ ایودھیا میں بھی کانگریسیوں کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور بی جے پی والے بھی خوب آزما رہے ہیں رام مندر کا دعوت نامہ دے کر اب کانگریس کے سامنے صورت حال یہ ہے کہ دریا کے پار جانا ہے مگر کشتی بی جے پی کی ہے اب اس پار جانا ہے تو کشتی میں سوار ہونا ہے اور نہیں تو پھر دریا کے کنارے ہی رہ جانا ہے یعنی معاملہ ووٹوں کا ہے اور دونوں طرف سے سیاست ہی تو ہورہی ہے لیکن پلڑا بھاری بی جے پی کا ہے،، بہرحال ہمیں احتیاطی قدم اٹھانا ہے بہت سی سرکردہ شخصیات نے اعلان بھی کیا ہے کہ اس دوران سفر نہ کریں ، شرپسندوں کے منہ نہ لگیں ، کہیں کوئی اشتعال انگیزی کرے تو آپ جوش میں آکر ہوش نہ کھو بیٹھیں ، فرقہ پرستوں کی سازشوں کا شکار نہ بنیں ،، یہ ان کا مشورہ قابل عمل ہے اور ان کا اعلان قابل خیر مقدم ہے اسی لئے بہتر ہے کہ مضامین بھی ایسے ہی لکھے جائیں کہ فرقہ پرستی کو تقویت نہ ملے اور کسی کو مذاق اڑانے کا یا لعن و طعن کرنے کا موقع نہ ملے ضرورت اس بات کی ہے کہ مساجد کو مسلکی رنگ نہ دیا جائے بلکہ اس کو آباد کیا جائے صرف جھالر اور قمقموں سے نہ سجایا جائے بلکہ قیام و رکوع و سجود سے سجایا جائے جیسے نماز جمعہ میں مساجد بھری رہتی ہے ویسے نماز پنجگانہ میں بھری جائے اس سے ہماری طرف سے عبادت بھی ہوگی اور مساجد کی حفاظت بھی ہوگی اور اللہ و رسول کی خوشنودی بھی حاصل ہوگی اور قبر سے لے کر حشر تک کی منزل بھی آسان ہوگی-
javedbharti508@gmail.com 
++++++++++++++++++++++++++++++
جاوید اختر بھارتی ( سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی 

Comments

Popular posts from this blog

شیخ الحدیث علامہ محمد سلیمان شمسی رحمۃ اللہ علیہ ایک مایہ ناز ہستی! تحریر* جاوید اختر بھارتی

حج عبادت بھی، رکن اسلام بھی، اور پیغام اتحاد و مساوات بھی!!! تحریر: جاوید اختر بھارتی

ضمیر کا دخل بہت بڑی چیز ہے تحریر! جاوید:اختر بھارتی