حضرت مولانا محمد سلیمان شمسی رحمۃ اللہ علیہ بانی دارالعلوم محمدیہ مالیگاؤں

تیسری قسط 

*حضرت مولانا محمد سلیمان شمسی صاحب* رح (سابق شیخ الحدیث دارالعلوم محمدیہ 
*از قلم مفتی محمد اسلم جامعی* 
(استاذ دارالعلوم محمدیہ قدوائی روڑ) 


کہنہ مشق حضرات کے تجربات،  کام کرنے کے طریقے، شوقِ عبادت، ذوقِ ریاضت، رسوخِ عزم، قوتِ ارادہ، شدتِ عمل، اور ان کے علمی و عملی کارناموں کے ذکر سے ، بعد کے لوگوں کو خوبی و کمال کی تحصیل کا حوصلہ ملتا ہے، نمونہ دیکھ کر باصلاحیت افراد کو چلنے کی راہ بھی ملتی ہے، اور سفر کا حوصلہ بھی ملتا ہے کیونکہ انسان کی فطرت ہے، کہ وہ بلندیوں کو دیکھ کر بلند ہونا چاہتا ہے، پستیوں میں رہ کر اس کی خداد صلاحیتوں کی وسعتیں سمٹنے لگتی ہیں۔ پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنے والے شاہین کا نظارہ ہی کسی شجرِ بلند کی شاخ پر نشیمن بنانے کا جذبہ ابھارتا ہے، اولوالعزم اور باہمت رجال کے علمی و عملی داستانوں کے مطالعہ کی ترغیب سے انسان کے اندر عزم و ہمت اور حوصلہ و جرأت کا بیج پروان چڑھتا ہے اور خاکستر میں دلی ہوئی چنگاریاں فروزاں ہوتی، اسی اہم نکتہ کی طرف ملک کے نامور عالم دین اور علمی دنیا کے بہترین شہسوار، ادیبِ شہیر حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا کہ بعد والوں کا یہ بھی فریضہ ہے کہ اگلوں کے محاسنِ اعمال، مکارمِ اخلاق اور معالی احوال کو یاد رکھیں، ان کا مذاکرہ کریں، اُنھیں بعد والی نسل تک منتقل کریں، تاکہ بعد والوں کو یاد رہے کہ ہمارے اسلاف کیسے تھے؟ ان میں اتباع سنت کی کیا شان تھی؟ ان کے احوالِ باطنی کیا کیا ہے، پھر ان کے دل میں حوصلہ اور ولولہ جاگے کہ ہمارے بزرگ بھی خاک کے پتلے ہی تھے، گوشت پوست کے ڈھانچے ہی تھے، اُنھیں امراض و عوارض میں وہ گھرے رہتے تھے، جن میں آج کا انسان مبتلا ہے، مگر اس کے باوجود بندگی کا حق کس طرح ادا کرتے رہے، انھوں نے اللہ کو راضی کرنے کے لیے کیا کیا جتن کئے، انھوں نے دنیوی مال و دولت کو کس طرح اپنی ٹھوکر میں رکھا، کیا یہ سب کچھ انھیں کے ساتھ مخصوص تھا، ان کے بعد جو خاک کے پتلے تیار ہوئے، اور ہڈیوں کے جو ڈھانچے گوشت و پوست کا لباس پہن کر وجود میں آئے، کیا وہ اس صلاحیت سے محروم ہیں؟ جب اُنھیں یہ خیال آئے گا تو ان کے اندر کی سوئی ہوئی عبدیت جاگے گی، چھپا ہوا جذبہ کمال اُبھرے گا خربوز کو دیکھ کر خربوز رنگ پکڑسکتا ہے ایک چراغ سے دوسرا چراغ جل سکتا ہے، ایک طوطی کی آواز سن کر دوسرا طوطی ترنّم ریز ہوسکتا ہے، تو کیا معنی کہ ایک انسان دوسرے انسان کو دیکھ کر اسی راہ پر نہ چل پڑے،، 
(کھوئے ہوئے کی جستجو صفحہ ٩)
 یقیناً یہ ساری معلومات حضرت شمسی صاحب رح پر لکھنے والوں  اور پڑھنے کے لیے مواد اور اصل ماخذ کا کام دی گی، اور اس بارے میں زیادہ تفتیش و تفحّص کی ضرورت  بھی نہیں ہوگی،  کیونکہ راقم السطور نے یہ ساری معلومات ان لوگوں سے حاصل کی جنہوں نے حضرت شمسی صاحب رح کو دیکھا اور استفادہ کیا، ان کے ساتھ اپنے قیمتی لمحات گزاریں،اور حضرت کے شب وروز ان کی آنکھوں کے سامنے تھے (جس میں حضرت کے پسر، نبیرہ اور شاگردوں اور خود حضرت کی خود نوشت سوانح حیات بھی شامل ہیں) مثلِ مشہور، بیا تا دیدۂ گردد ایں شنیدہ، شنیدہ کے بود مانند دیدہ یقیناً یہ حضرت شمسی صاحب رح کے دید سے اپنی آنکھوں ٹھنڈی کرنے والوں کے لیے دیدہ ہی ہیں، اور اب اس تحریر کو حضرت شمسی صاحب رح کی اولاد و احفاد پر مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں، تاکہ قارئین کے لیے بھی بار نہ ہوں، اولاد و أحفاد کی تحریر حضرت کے نبیرہ جناب جاوید اختر صاحب بھارتی نے بندہ کے استفسار پر  بھیجی، جس میں بندہ نے چند ایک الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ من و عن نقل کرنے کی کوشش کی ہے 
حضرت مولانا محمد سلیمان شمسی صاحب رح تو اپنے والدین کے اکلوتے تھے مگر خداوند عالم نے آپ کو ایک بھر پُرا کنبہ عطا فرمایا تھا، 
چنانچہ حضرت مولانا محمد سلیمان شمسی صاحب رح کے *تین صاحب زدگان* تھے 
بڑے صاحبزادے مولانا رشید احمد ،دوسرے صاحبزادے حافظ وحید احمد اور سب چھوٹے صاحبزادے  مولانا شاہد جمال صاحب ہیں 
دونوں بڑے صاحبزادوں کا انتقال ہو چکا ہے چھوٹے صاحبزادے مولانا شاہد جمال صاحب جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں
*دو صاحبزادیاں* حور جہاں، اور نور جہاں، : بڑی صاحبزادی کا 90 سال کی عمر میں 20 فروری 2024 کو انتقال ہوگیا ہے، 
چھوٹی صاحبزادی ابھی باحیات ہے
دونوں داماد کا بھی انتقال ہوچکا ہے، بڑے داماد الحاج زبیر احمد کپڑے کی دکان کرتے تھے چھوٹے داماد حافظ محی الدین صاحب نے مختلف مدارس میں شعبہ حفظ کی تعلیم دی، بڑی تعداد میں لوگوں کا حفظ قرآن مکمل کرایا، آخری عمر تک نمازِ تراویح پڑھایا، مقامی قصبہ محمدآباد، گوہنہ کے ساتھ ساتھ ناگپور، اکولہ، کھام گاؤں، امراوتی اور ناندیڑ ضلع کے حمایت نگر میں دارالعلوم محمدیہ، مسجد میں طویل عرصے تک رمضان المبارک کے مہینے میں نمازِ تراویح پڑھایا، 2017 میں موٹر سائیکل سے دھکّا لگا، جس سے ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ آئی آپریشن بھی ہوا مگر صحتیاب نہیں ہوسکے، آخر 14 فروری 2017 کو حضرت مولانا محمد سلیمان شمسی صاحب رح کے چھوٹے داماد حافظ محی الدین صاحب کا انتقال ہوگیا، یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب مولانا شمسی صاحب کا ناندیڑ میں انتقال ہواتھا تو ان کے چھوٹے داماد اس وقت حمایت نگر میں ہی نماز تراویح پڑھانے گئے ہوئے تھے، اور انہوں نے ہی مولانا سلیمان شمسی رحمۃ اللہ علیہ کے جنازے کی نماز پڑھائی تھی -
پوتے اور پوتیاں بھی درجنوں کی تعداد میں ہیں فیض الحق، ماسٹر ضیاء القمر ، جمال الدین ، محمود عالم، منظور عالم ، نہال اختر ، بلال اختر ، ہلال اختر وغیرہ ،، حضرت کی بڑی پوتی مئو ضلع کے پورہ معروف میں ایک مدرسہ چلارہی ہیں ان کی شادی حضرت مولانا زین العابدین صاحب کے صاحبزادے مولانا ابو عبیدہ کے ساتھ ہوئی تھی جو کئی سال قبل سفر کے دوران ریلوے پلیٹ فارم پر حادثے کا شکار ہوگئے، اسی طرح نواسے اور نواسیوں کی تعداد بھی درجنوں میں ہے، شوکت اظہر ، رفعت اظہر، محمد واصل، حافظ شفقت اظہر، جاوید اختر ، حافظ جنید احمد، مولانا عمر فاروق ندوی، خورشید عالم ایک نواسے اور ہیں  ان کا نام معلوم نہیں ہے وہ مولانا شاہد جمال صاحب کے داماد ہیں، 
خاص بات یہ ہے کہ حضرت مولانا سلیمان شمسی رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے اور پوتیاں بھی، پوتے اور پوتیاں والے ہیں اور اسی طرح نواسے اور نواسیوں کے بھی نواسے اور نواسیاں ہیں

Comments

Popular posts from this blog

شیخ الحدیث علامہ محمد سلیمان شمسی رحمۃ اللہ علیہ ایک مایہ ناز ہستی! تحریر* جاوید اختر بھارتی

حج عبادت بھی، رکن اسلام بھی، اور پیغام اتحاد و مساوات بھی!!! تحریر: جاوید اختر بھارتی

ضمیر کا دخل بہت بڑی چیز ہے تحریر! جاوید:اختر بھارتی