*قسط دوم* 

 *حضرت مولانا محمد سلیمان شمسی صاحب رح* (سابق شیخ الحدیث دارالعلوم محمدیہ قدوائی روڑ مالیگاؤں) 
*از قلم مفتی محمد اسلم جامعی* 
(أستاذ دارالعلوم محمدیہ قدوائی روڑ مالیگاؤں) 

انسان کے اندر تحقیق و جستجو کا مادہ پنہاں ہوتا ہے، جو حجابات اٹھاکر پوشیدہ چیزوں کو نمایاں کرتاہے، اور یہی مادہ سمندر کی گہرائیوں میں لؤلؤ اور مرجان کی تلاش اور خلاؤں کے سربستہ رازوں کو آشکارا کرنے پر آمادہ کرتا ہے، اسی مادہ کی بنیاد پر انسان اپنے بڑوں اور اسلاف کے حالات، کمالات، عروج اور تابندہ کارناموں سے آشنا ہونے کا خواہاں ہوتا ہے کیونکہ باکمال افراد و شخصيات کے حالات کی تحقیق و تفتیش اور مطالعہ میں عبرت و نصیحت کے ساتھ عقیدت و محبت کے جذبات بھی شامل ہوتے ہیں اسی جذبۂ تجسّس نے حضرت مولانا محمد سلیمان شمسی صاحب رح کے حالات کو ارقام کرنے پر آمادہ کیا،
*تدریسی خدمات*
 مولانا عبدالحی صاحب ایک ماہر مدرس تھے ان کی زیر تربیت حضرت مولانا محمد سلیمان شمسی صاحب رح کا. جوہرِ استعداد بھی نمایاں ہوچکا تھا، ١٣٦١ھ میں دارالمبلغین سے تکمیل کے بعد امام اہل سنت، حضرت مولانا عبدالشكور صاحب لکھنؤی نے آپ کو محمودہ آباد(ضلع سیتاپور یوپی) بھیجا جو ایک شیعی ریاست تھی، یہاں مولانا 9 سال رہے اور پوری ہمت و جرأت کے ساتھ رافضیت کی بیخ کنی، اور دینِ محمدی کی نشر و اشاعت میں مصروف رہے، ١٩٧٠ھ میں والدین کی ضعیفی، اور خانگی احوال کی وجہ سے وطنِ عزیز خیرآباد تشریف لائے، یہاں اپنی مادر علمی مدرسہ منبع العلوم میں چند سال تدریسی خدمات انجام دی ، اوقات مدرسہ کے علاوہ، محنتی اور تعلیم کے رسیّا طلبہ کو اپنے گھر پر مختلف کتابیں پڑھاتے تھے، چند سال کے بعد تدریس کو چھوڑ کر مولانا نےکاروباری لائن اختیار کر لی ، جب یہ اطلاع ان کے استاذِ عالی قدر محدث کبیر و محقق جلیل حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی رح کو ہوئی تو انھوں نے ناگواری کا اظہار کیا اور کہا کہ میں جلد ہی تمہیں کسی مناسب جگہ بھیجوں گا تم اس کے لئے تیار رہو، چنانچہ مولانا عبدالغنی صاحب رسولوی ( خلیفہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رح) کی طلب پر ان کو جامعہ مدینۃ العلوم رسولی ( بارہ بنکی یوپی ) بھیج دیا ، جہاں ترمذی و مسلم شریف اور موقوف علیہ کی کتابیں آپ کے سپرد کی گئیں ، چند سال وہاں رہے، لیکن وہاں کے حالات اطمینان بخش نہ رہے، تو پھر وہاں سے اپنے استاذ محترم کی ایماء پر مالیگاؤں تشریف لے گئے، 
*بحیثیت شیخ الحدیث مالیگاؤں آمد* 
پھر جب مدرسہ بیت العلوم( مالیگاؤں) کی مسندِ حدیث خالی ہوگئی تو حضرت مولانا عبدالستّار صاحب اعظمی کے اشارے پر حضرت مولانا عبدالقادر صاحب قاسمی رح (رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند) نے محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی سے درخواست کہ مدرسہ بیت العلوم میں دورہ حدیث کی کتب کی تدریس کے لیے کسی کو بھیج دوں تو محدث کبیر نے 1967ء (مجلہ انوار محمدیہ کے مطابق، اور حضرت شمسی صاحب رح کے نواسے جاوید اختر بھارتی صاحب کی تحریر میں مکتوب میں ہے کہ حضرت شمسی صاحب رح کی مالیگاؤں آمد 1955 میں ہوئی، اور حیاتِ شمسی سے بھی اسی کے قریب، تائید ہوتی ہے، حیاتِ شمسی میں حضرت نے لکھا کہ میں، مدرسہ بیت العلوم میں 22 سال رہا ، یہ اسی صورت میں مکمل ہے جب کہ 1955ء یا 1957 سن مانا جائے، مگر، دیگر مقامات پر تدریسی مدت سے پہلے قول کی بھی تائید ہوتی، سوسکتا ہے، حضرت کی 22 سالہ تدریسی خدمات سے بیت العلوم اور دارالعلوم محمدیہ دونوں مراد ہوں ؟ واللہ اعلم بالصواب) میں آپ کو مسندِ حدیث کے لئے بطورِ شیخ الحدیث بنا کر مالیگاؤں روانہ کیا، آپ نے مدرسہ بیت العلوم میں بطورِ شیخ الحدیث ١٣ سال گزارے، (مولانا ضیاء الحق صاحب خیرآبادی کے قول کے مطابق) آپ کے درسِ بخاری سے پورا مہاراشٹر گونج اٹھا، تعلیمی معیار بلند ہوا، آپ نے اپنے دورِ زرین میں ان گنت قابلِ رشک کام انجام دئیے، آپ کے دورِ صدارت میں مدرسہ اپنی آب و تاب کے ساتھ منازلِ عالیہ پر رواں دواں تھا، مگر پھر ١٣ سالوں کے بعد کچھ ایسے حالات پیش آئے کہ مولانا نے مدرسہ بیت العلوم سے استعفیٰ دے دیا،
*مدرسہ فلاح دارین ترکیسر میں،* 
حضرت مولانا انیس الرحمن صاحب قاسمی(شیخ الحدیث دارالعلوم محمدیہ) کے قول کے مطابق غالباً 1975ء یا 1976 میں حضرت شمسی صاحب رح ایک سال کی تعطیل لیکر گجرات کی مشہور و معروف دینی درسگاہ مدرسہ فلاحِ دارین ترکیسر میں ایک تدریسی خدمت انجام دی، آئینہ فلاح دارین میں حضرت شمسی صاحب رح کی تدریسی سن مذکور نہیں، مرتب آئینہ فلاحِ دارین حضرت مولانا احمد صاحب ٹنکاروی (استاذ مدرسہ فلاح دارین ترکیسر ) لکھتے ہیں کہ اس نیک گھڑی میں فلاحِ دارین کے ان اساتذۂ عظام کو کیسے فراموش کرسکتے ہیں، جو اس دار فانی سے دار بقاء کی طرف رحلت فرما گئے، جنہوں نے اپنے خون جگر سے فلاح دارین کی سینچائی فرمائی، اور ادارے کو ثریّا تک پہنچایا جن کے علم و ادب، تعلیم و تربیت اور دعائے نیم شبی سے اس گلشن کی باغ و بہار قائم ہے پھر وفات پانے والے اساتذہ کرام کے اسماء کو ترتیب وار ذکر کرتے ہوئے حضرت شمسی صاحب رح کے نام کو اس طرح ذکر کیا، "١٣" حضرت مولانا سلیمان شمسی صاحب (تاریخِ وفات ١٩٩٩ء مدفن نادیڑ) 
( آئینہ فلاح دارین صفحہ ٣١ )

راقم السطور نے اپنے دیرینہ رفیق مفتی امتیاز احمد فلاحی صاحب (فاضل مدرسہ فلاح دارین ترکیسر، و استاذ دارالعلوم محمدیہ قدوائی روڑ) سے اس بابت تبصرہ کیا تو مفتی صاحب نے بتایا کہ حضرت شمسی صاحب رح کے اشعار مدرسہ کی دیوار اور آفس میں ابھی بھی کندہ ہیں، ( حضرت مولانا مفتی عبداللہ صاحب کاپوردی رح حضرت علامہ شمسی صاحب رح کے دیرینہ رفیق تھے، جب ان کو حضرت شمسی صاحب رح کے مدرسہ بیت العلوم سے علاحدگی کا علم ہوا تو فوراً گاڑی لیکر مالیگاؤں آئے مدرسہ فلاح دارین ترکیسر کے لیے اصرار کرتے رہے، مگر آپ نے انکار کر دیا کیونکہ خلّاقِ عالم نے نوشتۂ ازل میں لکھ دیا تھا کہ اہلِ مالیگاؤں کو ابھی اور آپ کے فیضانِ علم سے سرشار ہونا ہے، اسی لئے خدا تعالیٰ ایسے اسباب پیدا فرمائے کہ آپ نے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی، جس سے بے شمار طالبان علوم نبوت فیض حاصل کیا اور کررہے ہیں یقیناً یہ سب آپ کے نامۂ اعمال حسنات کا اضافہ کررہے ہیں ) 
*دارالعلوم محمدیہ کی بنیاد*
 مدرسہ بیت العلوم سے سبکدوشی کے بعد شہرِ عزیز کے چند نامور علمی انتساب سے منسوب، اسلاف کی امانت امین علماء کرام خصوصاً حضرت مولانا عبدالقادر صاحب قاسمی رح، حضرت مولانا مولانا انیس الرحمن صاحب قاسمی، حضرت مولانا شکیل احمد صاحب قاسمی، مولانا ایوب صاحب قاسمی، وغیرہ کے ساتھ چند علمی محبت سے سرشار، امتِ مسلمہ کے تئیں دردِ دل رکھنے والے روشن ضمیر، اہل ثروت خصوصاً حاجی عبدالرحمن صاحب 62، حاجی محمد عمر گلشن مقادم، صاحب حاجی محمد مصطفیٰ بفاتی صاحب، حاجی محمد مصطفیٰ مکی صاحب کے علاوہ شمسی صاحب رح کے مخلص شاگردوں نے اس بات کی کوشش کی حضرت مولانا مالیگاؤں سے نہ جائے، تو 1980ء میں قلبِ شہر میں ایک افتاد زمین جو کسی موقع پر حاجی کرم اللہ صاحب نے وقف کی تھی، اسی زمین پر حضرت شمسی صاحب رح نے اپنے ہمدردوں، محبین اور شاگردوں کے ساتھ مل کر ایک اقامتی درسگاہ دارالعلوم محمدیہ کے نام سے قائم کیا، اور اپنی علمی لیاقت، اسلامی ذہانت، ہمہ گیر فکری صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اس نومولود مدرسہ کو پروان چڑھانے کی کاوشات کی، جس کا ثمرہ ہیں کہ دینیات اول سے لیکر دورہ حدیث تک تمام کلاسیں جاری وساری ہوگئی اور ملک کی نامور علمی شخصیت کی آمد و رفت بھی شروع ہوئی، (جیسا کہ مجلہ انوار محمدیہ میں ہیں) تقریباً آپ 8 سال تک دارالعلوم محمدیہ کی مسندِ حدیث پر جلوہ افروز رہے، مگر خلّاقِ عالم نے نوشتۂ ازل میں لکھ دیا تھا کہ دوسری جگہ بھی براہ راست آپ کا فیضانِ علم جاری ہوگا، اور ایک معتدبہ تعداد آپ سے اکتسابِ فیض کررے گی، اس لیے اپنے خون جگر سے جس شجرِ علم کو پروان چڑھارہے تھے اس کو اپنے شاگردوں کے حوالہ کر کے اکل کوا تشریف لے گئے، 

*جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا*
ابھی آپ دارالعلوم محمدیہ کے سنگ ریزوں کو تراش کر کندن بنارہے تھے کہ جوہر شناس رئیس جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا خادم القرآن و معمار المساجد حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب نے ١٤٢٠ ھ، باصرار اشاعت العلوم اکل کوا کی مسندِ حدیث کے لئے شیخ الحدیث بنا کر لے گئے اور آخری زیست تک شیخ الحدیث کے منصب پر فائز شعبان ۱۴۲۰ھ ( نومبر ۱۹۹۹ء ) میں مولانا اپنے وطن خیر آباد تشریف لے گئے ، کچھ دن قیام کے بعد اپنے سب سے چھوٹے صاحبزادے مولانا شاہد جمال صاحب (استاذ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا) کے ہمراہ ناندیڑ چلے گئے جہاں ان کا قیام تھا ، ناندیڑ میں ہی ۱۹ رمضان المبارک ۱۴۳۰ھ مورخہ ۲۸ دسمبر 1999 ء کو مولانا کا انتقال ہوا ، اور نادیڑ ہی ان کی آرام گاہ ثابت ہوئی، اپنی پوری زندگی درس تدریس تعلیم و تعلم اور خدمتِ دین کے لیے وقف کردی تھی، رحمہ الله رحمة واسعة تقريبا نصف صدی سے زائد عرصہ تک وہ اپنی علمی ضیاء پاشیوں سے تاریکیوں کو منور کرتے رہے اور طالبانِ علوم نبوت کی تشنگی کو سیرابی عطا کرتے رہے 81 سال کی عمر میں وہ ہزاروں فیض یافتگان محبین کو سرگوار کرکے اپنی اصل منزل کی طرف چلے گئے،

 آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

Comments

Popular posts from this blog

شیخ الحدیث علامہ محمد سلیمان شمسی رحمۃ اللہ علیہ ایک مایہ ناز ہستی! تحریر* جاوید اختر بھارتی

حج عبادت بھی، رکن اسلام بھی، اور پیغام اتحاد و مساوات بھی!!! تحریر: جاوید اختر بھارتی

ضمیر کا دخل بہت بڑی چیز ہے تحریر! جاوید:اختر بھارتی