ہم صرف دعا سے کام لینا چاہتے ہیں!! تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاوید اختر بھارتی
ہم صرف دعا سے کام لینا چاہتے ہیں!
تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاوید اختر بھارتی
javedbharti.blogspo.com
ایک پروگرام میں ایک مولانا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زمانہ کی گردش اور الٹ پھیر خدائی نظام ہے قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں تاریخ کا حصہ رہی ہیں لہٰذا ہمیں موجودہ حالات میں مایوس اور خوفزدہ ہونے کے بجائے اپنا احتساب کرنے کے ساتھ دعا کے ذریعے رب کائنات سے مدد و نصرت حاصل کرنے کی ضرورت ہے ،، ہمیں اس بات پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے اسباب رہے جن کے سبب ہم اللہ کے گھر سے محروم کردئیے گئے ( شائد اشارہ بابری مسجد کی طرف تھا) ہمیں مسجدوں کی حالت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس طرح سے ہم اللہ کے گھر کی تعمیر کے لئے فکر مند ہیں اسی طرح ہمیں اس کے گھر کو آباد رکھنا چاہئے اور آباد کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ،، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دعا کرنا چاہئے کیونکہ دعا مومن کا ہتھیار ہے لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ پہلے مومن بننا ہوگا اور آج مسلمانوں کے جو حالات ہیں اس کے تناظر میں تو واضح ہوتا ہے کہ مومن اور مسلمان میں فرق ہے کیونکہ مومنانہ کردار میں کسی کے ساتھ حق تلفی کی گنجائش نہیں ہے ، ذات برادری کا کھیل کھیلنے کی بھی گنجائش نہیں ہے ، فرقہ فرقہ کھیلنے کی بھی گنجائش نہیں ہے ، جھوٹ بولنے کی گنجائش نہیں ہے ، تجارت میں دھوکا دینے کی گنجائش نہیں ہے ، کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی گنجائش نہیں ہے ، برہمنیت اور پاپائیت کی گنجائش نہیں ہے ، مساوات سے منہ موڑنے کی گنجائش نہیں ہے ، مہنگی مہنگی قالینوں پر سونے کی بھی گنجائش نہیں ہے ، مزدوروں کا حق مارنے کی گنجائش نہیں ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھنے اور ماننے کی بھی گنجائش نہیں اب دل پر ہاتھ رکھیں چاہے آنکھیں بند کرکے تصورات کی دنیا میں کھو کر جائزہ لیں یا آنکھیں کھول کر جائزہ لیں پھر دیکھیں کہ مذکورہ عادات اور نظریات اور یہ ناسور نما بیماریاں ہمارے اندر ہیں کہ نہیں؟ اگر ہیں تو کیا یہ رہتے ہوئے ہم کامیاب ہوسکتے ہیں ؟ اگر کامیاب ہو سکتے تو آج پوری دنیا میں مسلمان ذلیل ورسوا نہیں ہوتا ،، قرآن نے مومنوں کے لئے کہا ہے کہ تم غمزدہ نہ رہو تمہیں سر بلند رہوگے، تم ہی کامیاب رہوگے مگر شرط یہ ہے کہ مومن بنو ،، اس آیت میں مسلمین نہیں مومنین کہا گیا ہے ،، اور جہاں تک بات دعا کی ہے تو خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کھودی، پیٹ پر پتھر باندھا ، میدان بدر میں صفیں لگوائیں اس کے بعد دعائیں کی ہیں اور آج کا مسلمان ہاتھ پر ہاتھ دھرے معجزے کا انتظار کررہاہے ہے غیبی مدد کا انتظار کررہاہے یہ بھول رہا ہے کہ تخلیق کائنات کا سہرا جن کے سر ہے اس مقدس ہستی نے ہر میدان میں ، ہر شعبے میں عمل کی انتہا کردی ہے تب ہم کو اسلام ملا ہے ہم کو بنا بنایا ہوا دین ملاہے اور ایسا لائحہ عمل مرتب کرکے ملا ہے کہ اس پر عمل پیرا ہوجائیں تو دنیا ہماری ٹھوکروں میں ہوگی اور وہ لائحہ عمل محسن انسانیت رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ہے ، آپ کی حیات طیبہ ہے اور خدمات طیبہ ہے،، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے جھرمٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں ایک یہودی کی میت کاندھوں پہ اٹھائے لوگ لے جارہے ہیں نبی پاک بیٹھے تھے کھڑے ہوگئے صحابہ کرام نے کہا کہ یا رسول االلہ مرنے والا یہودی تھا پھر آپ کیوں کھڑے ہوگئے تو نبی پاک نے جواب دیا کہ آخر وہ انسان تو تھا ایک انسان کی میت کاندھوں پر دیکھ کر میں کھڑا ہوگیا اور آج یہ کام مسلک کے نام پر بھی کرنے کا پیغام دینے کے لئے ہم تیار نہیں ہیں اور نہیں تو میت رکھ کر نماز جنازہ ادا کرنے سے قبل بعض فرقہ پرست مولوی اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے علاوہ کسی اور مسلک سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص جنازے میں شامل ہو تو فوراً نکل جائے ،، اور جب ماحول ہنگامہ خیز ہوتاہے تو کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں اتحاد ہونا چاہئے اس دوہرے معیار کا محاسبہ کب ہوگا؟ آج کا مسلمان صرف اپنا کاروباری محاسبہ کرتا ہے وہ بھی اس بنیاد پر نہیں کہ ہمارا کاروبار اسلامی تعلیمات و احکامات کے مطابق چل رہاہے کہ نہیں بلکہ اس بنیاد پر کرتا ہے کہ سال بھر میں ہمارا نفع ہوا یا نقصان ہوا، حالانکہ اسلامی تعلیمات و احکامات کے مطابق کاروبار کرنے میں ہی نفع ہے لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر مکمل بھروسہ کرنا ہوگا واضح رہے کہ جھوٹ بولنے سے اللہ کی ذات پر بھروسہ ہوہی نہیں سکتا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ کا مال لے کر ملک شام گئے تھے تو اللہ کی ذات پر بھروسہ کرکے گئے تھے اور اتنا فائدہ ہوا کہ اس سفر کا ذکر کرنے کی بنیاد پر بھی ثواب ملتا ہے ،، اور ہمارا تجارت کے معاملے میں کیا حال ہے ہم خود اندازہ لگاسکتے ہیں ہمارے اندر تو اب اتنی ہمت ہوچکی ہے کہ ہم یہاں تک کہتے ہیں کہ بغیر جھوٹ بولے کام ہی نہیں چل سکتا کیا آج کے کسی انسان یا کسی مسلمان کا کاروبار حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے یا حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاروبار سے بڑھ کر ہے ؟ مگر نہیں ہم نے آسان راستہ اختیار کرلیا ہے ،، کن وجوہات و اسباب کی بناءپر پہلے کے مسلمان کامیاب تھے اس کا ذکر قرآن وحدیث میں موجود ہے ، ان کا ایمان پختہ تھا، دل حب نبی سے روشن تھا، اطیعواللہ و اطیعو الرسول ان کا شیوہ تھا اور ہم نے حب نبی نعروں تک محدود کردیا، قرآن وحدیث جلسوں تک محدود کردیا، سننے اور سنانے تک محدود کردیا، بزرگان دین کی تعلیمات پر عمل کرنے کے بجائے عرس و لنگر تک محدود کردیا، سنت کھانے پینے و پکوان تک محدود کردیا، شادی بیاہ ، دعوت و نکاح نمائش و دیکھاوا میں تبدیل کردیا اور سیاسی سوچ و نظریہ صرف ووٹ دینے تک محدود کردیا ،، کبھی دل پر ہاتھ رکھ کر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ پچیس سال کی عمر میں کنوارے ہوکر چالیس سالہ بیوہ سے نکاح کرنا بھی سنت ہے ، تحفے تحائف کی شکل میں کہیں سے سونا چاندی بھی آجائے تو اسے غریبوں میں تقسیم کرنا بھی سنت ہے ، حق و باطل کے مابین لڑائی میں خندق کھودنا بھی سنت ہے، بھوک و پیاس کی شدت کے عالم میں شکوہ نہ کرکے پیٹ پر پتھر باندھنا اور سجدہ شکر ادا کرنا بھی سنت ہے اور مال غنیمت کا اپنا حصہ یتیموں کو دیدینا بھی سنت ہے حتیٰ کہ سیاست کرنا اور امانت دارانہ مشورہ دینا بھی سنت ہے ،، ہم نے سمجھ لیا کہ بس کھجور کھانا سنت ہے ، کھانے کے بعد میٹھا کھانا سنت ہے اور دعوت کھانا سنت ہے ارے دین کی دعوت دینا بھی سنت ہے اور دین کی دعوت دینے میں لاکھ دشواریاں آئیں ان سے پیچھے نہ ہٹنا بھی سنت ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمام مخلوقات بنایا مگر انسان کو اشرف المخلوقات کادرجہ دیا جبکہ جن و ملک کو بھی یہ درجہ نہیں دیا اور مسلمانوں کے لئے مزید خوش قسمتی کی بات ہے کہ خاتم الانبیاء کی امت ہیں کہ جس کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے خواہش ظاہر کی تھی کہ ائے اللہ مجھے خوشی ہوتی اور فخر ہوتا کہ تو مجھے نبی نہ بناتا بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک امتی بناتا ،، انسان ہونے کی بنیاد پر ہم اشرف المخلوقات اور مسلمان ہونے کی بنیاد پر ہم خیر امت خود قرآن اعلان کررہا ہے کہ کنتم خیر امۃ اخرجت لناس ہماری رہبری کے لئے رب کا قرآن ہے اور نبی کا فرمان ہے اور یہ مکمل ضابطۂ اسلام بھی ہے اور ضابطۂ حیات بھی ہے مشعل راہ بھی ہے اور ذریعۂ نجات بھی ہے پھر بھی ہم آج ذلیل وخوار ہورہے ہیں اور ذلیل وخوار ہونے کے باجود بھی صرف ایک معاملے کے علاوہ کسی معاملے میں محاسبہ نہیں کرتے یہاں تک کہ ہم کسی سیاسی پارٹی کو ووٹ دینے کے بعد پانچ سال گزر جانے پر دوبارہ ووٹ دیتے ہیں مگر محاسبہ نہیں کرتے ہیں کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا ،، ادھر چالیس سال میں ملک کے آئین کے ذریعے حاصل اختیارات کے نتیجے میں دبے کچلے لوگوں کی زندگی سنور گئی ، اقتدار میں حصہ داری مل گئی اور اقتدار کا مزا چکھ لیا ان کی سیاسی شناخت قائم ہوگئی اور ہم حاشیے پر بھی کہیں نظر نہیں آتے آخر اس کا محاسبہ کب کیا جائے گا؟ اس درد کو محسوس کیا تھا مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی نے اور ان کا مضبوط قول اور مضبوط خلاصہ خطاب یہی ہوا کرتا تھا کہ مسلمانوں کو پنجوقتہ نماز کا پابند بنا دیا جائے اور تہجد گزار بھی بنادیا جائے لیکن اس کے سیاسی شعور کو بیدار نہیں کیا گیا اور وہ سیاسی طور پر بیدار نہیں ہوا تو ممکن ہے کہ مستقبل میں وہ اپنی جائے نماز کا بھی تحفظ نہ کرسکے،، آج نتائج ہمارے سامنے ہیں اور آج بھی ہم آسان راستے کی تلاش میں ہیں کبھی نتیش کمار کی طرف دیکھتے ہیں تو کبھی چندرا بابو نائیڈو کی طرف دیکھتے ہیں ،، کبھی اکھلیش یادو کے سر پر پگڑی باندھتے ہیں تو کبھی راہل گاندھی کے سر پر پگڑی باندھتے ہیں لیکن خود اپنے سر پر ، اپنے سماج کے سر پر پگڑی باندھنے پر غور نہیں کرتے جبکہ آئین نے ووٹ مانگنے کا ، ووٹ دینے کا ، ووٹ لینے کا اور سیاسی پارٹی بنانے کا حق سب کو دیا ہے،، اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنا دینی ، سماجی ، معاشی، تعلیمی ، معاشرتی اور سیاسی محاسبہ کریں اور یاد رکھیں موجودہ دور کے سارے مسائل سیاسی ہیں اور سیاست سے ہی حل ہوں گے-
javedbharti508@gmail.com
+++++++++++++++++++++++++++
Comments
Post a Comment