کیوں کہا جاتا ہے کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا!!! تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاوید اختر بھارتی

کیوں کہا جاتا ہے کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا!!
تحریر: جاوید اختر بھارتی 
javedbharti.blogspot.com
بہت سے ایسے مواقع آتے ہیں کہ تقریر و تحریر میں کہا جاتا ہے کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ،، اس جملے میں جذبات بھی ہے ، للکار بھی ہے ، چیلنج بھی ہے ، یقین بھی ہے اور پختگی بھی ہے مگر یہ یاد رکھیں کہ یہ جملہ مخصوص موقع کے لئے ہے اور یہ جملہ کہتے ہوئے خود کہنے والا بھی محاسبہ کی زد میں ہوتا ہے ،، ماچس کی تیلی پھونکوں سے بجھ جاتی ، جلتی ہوئی موم بتی پھونکوں سے بجھ جاتی ہے مگر چھوٹے چولہوں میں مختصر لکڑیاں جب سلگتی ہیں تو پھونکوں سے بجھنے کے بجائے جلنے لگتی ہیں اور جلنے کے دوران پھونکوں سے بجھتی بھی نہیں ہیں پھونکوں سے غبارے پھلائے جاتے ہیں مگر پھونکوں سے ٹائر میں ہوا نہیں بھری جاسکتی آئیے پھر چلتے ہیں اس جانب جہاں سے ابتداء کی گئی ہے کہ پھونک سے آگ بجھتی بھی ہے اور بھڑکتی بھی ہے لیکن کبھی کبھی آگ اور دھوئیں سے ہٹ کر بھی جملہ استعمال کیا جاتاہے کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا جبکہ چراغ پھونکوں سے بجھ جاتا ہے مگر اس کے باوجود بھی یہ کہنا کہ پھونکوں سے چراغ بجھایا نہ جائے گا یہی چیلنج ہے دراصل یہ ایک حقیقت کو ڈنکے کی چوٹ پر اجاگر کرنے کے لئے اور سچائی کو عام کرنے کے مقام پر استعمال کیا جاتاہے جیسے کوئی اپنے دائیں اور بائیں ، آگے اور پیچھے تھوک سکتاہے مگر چہرہ اوپر کرکے تھوکے اور چاہے کہ وہ تھوک اوپر ہی چلا جائے تو ناممکن ہے وہ اسی کے چہرے پر واپس آئے گا ،، ایک زمانہ تھا کہ مسلمانوں کی تعداد انتالیس تھی عمر بن خطاب کہتے تھے کہ اب چالیسواں مسلمان کوئی نہیں ہوگا قتل نبی کے ارادے سے عمر چلے مگر رحمۃ للعالمین کی دعا اور رب العالمین کی بارگاہ میں قبولیت نتیجہ یہ ہوا کہ چالیسویں مسلمان خود عمر بن خطاب ہوئے اور عمر سے حضرت عمر ہوگئے ،، کفار سمجھ رہے تھے کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھا دیا جائے گا ،، معرکہ بدر میں مسلمانوں کی تعداد 313 تھی کسی کے پاس تلوار تھی تو ڈھال نہیں ، کسی کے پاس ڈھال تھی تو تلوار نہیں ، کسی کے پاس دونوں تھی تو گھوڑا نہیں اور دوسری طرف کفار کا بھاری بھرکم لشکر تھا اس موقع پر بھی کفار کو بھروسہ تھا کہ دین اسلام کا چراغ تو بجھ ہی جائے گا مگر نبی پاک نے خود لشکر تشکیل دیا میدان جنگ میں قدم رکھا جنگ کے سارے اصول وضوابط مرتب کرنے کے بعد بارگاہ خداوندی میں مسلمانوں کی کامیابی کے لئے اور حق کی بلندی کے لئے اور اسلام کی فتح کے لئے دعائیں کی وہ حق و باطل کا پہلا معرکہ تھا اور اسلامی لشکر کی فتح ہوئی اسلام کا ڈنکا بجا اور ایسا ڈنکا بجا کہ آج تک بج رہا ہے اور قیامت تک بجے گا اور جب بھی کوئی بدبخت کوئی دشمن اسلام دین کو مٹانے کی بات کرے گا تو بے ساختہ ڈنکے کی چوٹ پر یہ جملہ کہا جائے گا کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ،، حضرت عمر قتل نبی کے ارادے سے چلے اور راستے میں بہن بہنوئی کی خبر ملی تو بہن کے گھر پہنچے اور وہاں سے جب بارگاہ نبی میں پہنچے تو خود اعلان کردیا کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ،، ہجرت کی شب ہے دشمنان اسلام کاشانہ نبی گھیرے ہوئے ہیں انہیں اس بات کا یقین تھا کہ جیسے ہی محمد گھر سے نکلیں گے تو کام تمام کردیا جائے گا نبی سید الکونین گھر سے نکلتے ہیں مٹی دشمنان اسلام پر پھینکتے ہیں ان کی آنکھوں کی بینائی نے کام کرنا بند کردیا نبی پاک کے دست مبارک سے پھینکی گئی مٹی نے اعلان کردیا کہ دین اسلام وہ روشن چراغ ہے کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ،، سراقہ نبی پاک کا پیچھا کرنے چلے تو حکم نبی پر عمل کرتے ہوئے زمین نے سراقہ کے گھوڑوں کے پاؤں اپنے اندر دھنسا کر اعلان کیا کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا،،
طفیل طوسی کانوں میں روئی ڈال کر چلا کرتے تھے کہ خاتم الانبیاء کی بات کانوں میں نہ سنائی اور کوئی بھی شخص قرآن پڑھے تو وہ آواز بھی کانوں میں نہ جائے لیکن چھپ چھپ کر دیکھا بھی کرتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا پڑھتے ہیں اور کیا کرتے ہیں ایک دن اللہ کے رسول نماز پڑھا رہے تھے اور قرآن کی تلاوت فرمارہے تھے کہ طفیل طوسی کانوں سے روئی نکال کر اور دیواروں سے چپک کر سننے لگے اور نتیجہ یہ ہوا کہ دل کی کیفیت تبدیل ہونے لگی جیسے ہی نماز مکمل ہوئی وہ بارگاہ رسالت میں پہنچے کلمہ حق پڑھا مسلمان ہوگئے اور اعلان کردیا کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ،، ابو جہل کو بڑا گھمنڈ تھا کہ میری مٹھی میں کنکریاں ہیں محمد سے پوچھوں گا کہ نبی ہوتو بتاؤ میری مٹھی میں کیا ہے وہ بتا نہیں پائیں گے تو میں خوب مذاق اڑاؤں گا،، نبی پاک سے ابو جہل پوچھتا ہے کہ بتاؤ میری مٹھی میں کیا ہے تو نبی نے فرمایا کہ خود اپنی مٹھی سے پوچھ لے ابو جہل جب اپنی مٹھی کان تک لے گیا تو مٹھی سے کلمہ حق کی آواز آرہی تھی مارے غصے کے کنکریاں پھینک دی تو کنکریوں نے اعلان کرنا شروع کردیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین سچا ہے ائے بدبخت ابو جہل محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ چراغ روشن کیا ہے کہ اب پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ،، دو چھوٹے چھوٹے بچوں نے ابو جہل لعین کو زمین پر پچھاڑ دیا پھر قتل بھی کردیا گیا ان دو چھوٹے چھوٹے بچوں نے اعلان کردیا کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ، حضرت سمیہ کے ساتھ ابو جہل ظالم نے وہ ظلم کیا ہے کہ سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں شرم گاہ میں نیزہ مارا دونوں پاؤں کو دو جانوروں کے ساتھ باندھ کر دو سمت دوڑا دیا حضرت سمیہ کا جسم چر گیا لیکن اسلام پر قائم رہیں نبی کا کلمہ پڑھتی رہیں اور اعلان کرتی رہیں کہ ائے ظالموں پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ،، جب قرآن کو ایک بادشاہ نے مخلوق کہا تو حضرت امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ مخلوق کو فنا ہونا ہے اور قرآن مخلوق نہیں ہے قرآن اللہ کا کلام ہے نتیجے میں بادشاہ نے امام احمدبن حنبل کو کوڑوں سے مروایا اور ہر کوڑے پر امام احمدبن حنبل یہی کہتے رہے کہ قرآن اللہ کی مخلوق نہیں ہے بلکہ قرآن اللہ کا کلام ہے اس طرح امام احمدبن حنبل نے بھی چیلنج کردیا کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ،، معلوم ہوا کہ جب بھی صداقت و حقانیت کو جھٹلانے کے لئے کوئی بدبخت میدان میں آئے گا تو کوئی نہ کوئی اس کا دندان شکن جواب دینے والا بھی ہوگا اور اسی کے درمیان و دوران یہ نعرہ بھی گونجے گا کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا کیونکہ اس چراغ سے مراد دین اسلام ہے ، ضابطہ اسلام ہے ، احکامات و ہدایات اور تعلیمات اسلام ہے جو اللہ کا سب سے پسندیدہ دین ہے جس کو قائم رکھنے اور جس کا بول بالا کرنے کا وعدہ اللہ نے خود اپنے محبوب محسن انسانیت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہے ،، جس نے وعدہ کیا ہے وہ ذات رب العالمین کی ہے اور جس سے وعدہ کیا ہے وہ ذات رحمۃ للعالمین کی ہے اسی بنیاد پر دشمنان اسلام کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ 
javedbharti508@gmail.com
+++++++++++++++++++++++++++++++
جاوید اختر بھارتی ( رکن مجلس شوریٰ جامعہ فیض العلوم) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی

Comments

Popular posts from this blog

یوپی الیکشن: پھر لفظ سیکولر گونجنے لگا! تحریر: ‏جاوید ‏اختر ‏بھارتی

ہمارے لیے علم سرمایہ ہے اور علم دین عظیم سرمایہ ہے

شاہین باغ کی طرح پورے ملک سے اٹھنے لگی آئین و جمہوریت بچانے کی آواز!