رمضان ہے کہیں سفید پوشی کا بھرم ٹوٹ نہ جائے!! تحریر::جاوید اختر بھارتی
رمضان ہے:کہیں سفید پوشی کا بھرم ٹوٹ نہ جائے!!
تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاوید اختر بھارتی
javedbharti.blogspot.com
رمضان کا مہینہ عبادت و ریاضت کا مہینہ ہے نیکیوں کا موسمِ بہار ہے ، خوش دلی و خوش مزاجی کا مہینہ ہے ، احساس و جذبات و احترام کا مہینہ ہے خوش رہنے اور خوشیاں بانٹنے کا مہینہ ہے ، غرباء ومساکین کے گھروں میں چراغ روشن کرنے کا مہینہ ہے ، کمزوروں کو سہارا دینے کا مہینہ ہے ، ہمسایوں کی حوصلہ افزائی کا مہینہ ہے ذکر و اذکار سے مساجد کو آباد کرنے کا مہینہ ہے سحری و افطار کے دسترخوان سجانے کا مہینہ ہے اور اس دسترخوان پر غریبوں ، یتیموں اور مسکینوں کو بیٹھا کر روزہ افطار کرانے کا مہینہ ہے ،، رمضان کی ساری خوشیاں اگر ہم صرف اپنے اوپر نچھاور کریں تو گویا ہم نے رمضان کے مقاصد کو نہیں سمجھا رمضان کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ ہر شخص کو اس بات کا خیال رہے کہ سحری و افطار کے وقت کوئی بھوکا نہ رہے ،، رمضان کے مہینے میں شہر ہو یا دیہات ، چھوٹا علاقہ ہو یا بڑا علاقہ ہر جگہ بازاروں میں چہل پہل بڑھ جاتی ہے ، پھل فروٹ کی دکانیں بڑی تعداد میں لگ جاتی ہیں اور لوگ اپنی اپنی وسعت کے اعتبار سے سحری و افطار کا انتظام بھی کرتے ہیں ان میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو سحری و افطار کے انتظامات اپنے لئے کرتے ہیں تو دوسروں کے لئے بھی کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہئے اور جو لوگ کررہے ہیں یقیناً وہ بہت خوش قسمت لوگ ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ انہیں عمر دراز عطا فرمائے اور ان کے بازوؤں میں طاقت عطا فرمائے اور دل کھول کر راہ خدا میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ،،
یہ دنیا ہے ہزاروں رنگ بدلتی ہے اور انسانوں کا وقت بھی بدلتا رہتا ہے اگر کسی کے پاس دولت کا انبار لگا ہے تو وہ یہ سوچ کر فخر نہ کرے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ مجھ سے بہت زیادہ خوش ہے اور راضی ہے ،، اگر کوئی شخص غریب ہے تو وہ بھی یہ نہ سوچے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ مجھ سے ناراض ہے اس لئے اس نے ہمیں غریب مزدور بنایا ہے نہیں ہرگز نہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ دولت دے کر بھی آزماتا ہے اور غربت دے کر بھی آزماتا ہے وہ کسی کو کچھ دینا چاہے تو پوری دنیا مل کر اسے روک نہیں سکتی اور جسے نہ دینا چاہے تو پوری دنیا مل کر بھی اسے دے نہیں سکتی ،، قارون کے پاس بڑی دولت تھی لیکن جب اس نے اللہ کی اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی نافرمانی کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے خزانہ سمیت اسے زمین میں دھنسا دیا اور پوری دنیا مل کر بھی اس بدبخت قارون کو زمین میں دھنسنے سے نہیں روک سکی ، فرعون حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا دشمن لیکن اللہ نے حضرت موسیٰ کی پرورش خود فرعون کے محل میں کرائی اور وہ بھی وقت آیا کہ فرعون کو دولت کا گھمنڈ تھا ، بادشاہت و حکومت اور طاقت کا گھمنڈ تھا نتیجہ یہ ہوا کہ دریائے نیل میں اللہ نے راستہ پیدا کردیا اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا لشکر پار ہوگیا اور جب فرعون کا لشکر اس راستے پر دونوں ساحل کے بیچ پہنچا تو اللہ نے وہ راستہ ختم کردیا دریا کا پانی مل گیا اور فرعون کا لشکر دریا میں غرق ہوگیا اور پوری دنیا مل کر بھی فرعون کے لشکر کو دریا میں غرق ہونے سے نہیں بچا سکی ،، اس لئے یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ دولت سے مالامال کرنے پر قادر ہے تو چمڑی ادھیڑنے پر بھی قادر ہے ،، اس لئے ہم آپ مالدار ہیں تو بھی اللہ کا شکر ادا کریں اور غریب ہیں تو بھی اللہ کا شکر ادا کریں یعنی ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا ضروری ہے ،، زندگی میں بار بار رمضان المبارک کا مہینہ نصیب ہو پھر بھی مسلمانوں کے اندر انقلاب نہ آئے تو بدنصیبی کی ہی بات ہے ،، جس مہینے میں سنن و نوافل کا درجہ فرض کے برابر ہوجائے ، ایک فرض ستر فرض کے برابر ہوجائے اور یہ عظیم الشان آفر اللہ رب العالمین کی جانب سے ہو اس کے باوجود بھی بندہ اس مہینے میں کوئن اور پوئنٹ تلاش کرے ، انگلیوں سے کیرم بورڈ کی گوٹیاں کھسکائے تو بدنصیبی ہی نہیں بلکہ بدنصیبی در بدنصیبی کی بات ہے ،، ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس خیر وبرکت کی برسات میں نہائے یعنی اس ماہ مبارک میں اپنے آپ کو سرخرو بنائے ، اپنے خیالات و احساسات اور تصورات کو پاکیزہ بنائے ،، زید ایک پولیس آفیسر ہے روڈ پر کھڑا گاڑیوں کی چیکنگ کررہا ہے بڑا سخت دل ہے ایک نوجوان کا گذر ہوتا ہے تو اسے روکتا ہے گاڑی کے کاغذات دیکھتا ہے ، جیبوں کی تلاشی لیتاہے جب وہ پوری طرح صحیح ثابت ہوتاہے تو اسے ڈانٹ کر بھگا دیتاہے اتنے میں ستر سال کا ایک بندہ گاڑی چلاتے ہوئے آتا ہے تو اسے زبردستی روکتا ہے گاڑی کے کاغذات مانگتا ہے وہ جواب دیتا ہے کہ گاڑی میرے مالک کی ہے میں ایک مزدور اور غریب آدمی ہوں زید اسے ڈانٹتا ہے اور کہتا ہے کہ تمہاری جیب میں جو کچھ ہے اسے نکالو تو وہ نہیں نکالتا ہے تو وہ زید پولیس آفیسر زبردستی اس بوڑھے کی جیب میں ہاتھ ڈال دیتاہے اور ایک پلاسٹک کی تھیلی برآمد ہوتی ہے جس میں پھل فروٹ ہوتے ہیں وہ بھی سڑے اور گلے ہوئے اب اس پولیس آفیسر کا دل پسیجتا ہے اور کہتاہے کہ ائے چاچا یہ سڑے گلے فروٹ کہاں لے جارہے ہو اس سے تو بدبو آرہی ہے کون اسے کھائے گا ارے جو کھائے گا اس کے بیمار ہونے کا اندیشہ ہے اس سے بیماری پھیل سکتی ہے ،، اب وہ بوڑھا شخص کہتا ہے کہ آج میری بچیاں ضد کررہی تھیں کہ بابا فروٹ لے کر آنا اور میری اتنی آمدنی نہیں ہے کہ دوسو ڈھائی سو روپے کلو کا فروٹ خرید سکوں تو میرے مالک نے اپنی فریج سے یہ پھل فروٹ نکال کر کہا کہ ائے بکر: چاچا اس سڑے گلے فروٹ کو کوڑے دان میں پھینک دو میں جب پلاسٹک کی تھیلی اپنے ہاتھوں میں لیا تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے پھر میں نے سوچا کہ اس میں سے چیک کروں جو تھوڑا بہت اچھا ہوگا اسے الگ الگ کرکے اپنے گھر لے جاؤں گا اور اپنی بچیوں کو دوں گا،، پھر پولیس آفیسر پوچھتا ہے کہ جب جیب میں کوئی غلط چیز نہیں تھی تو پھر تلاشی کے لئے تیار کیوں نہیں تھے تو اس بوڑھے شخص نے کہا کہ صاحب آج کے دور میں بہت کچھ چھپانا پڑتا ہے لوگوں کے درمیان ہنسنا تو تنہائی میں رونا پڑتا ہے اس لئے کہ کبھی کہیں اداس بیٹھے رہنے کا اتفاق ہوتا ہے تو غیروں کو چھوڑئیے اپنے قریبی بھی نگاہ کرم بچائے ہوئے گذرجاتے ہیں اس لئے میں سوچا کہ جلدی سے میں بھی گذر جاؤں اور آپ مجھے روک نہ نہ پائیں تاکہ میری سفید پوشی کا بھرم بھی ٹوٹنے سے بچ جائے لیکن آپ نے زبردستی کی وردی کا رعب اور دبدبے کا استعمال کیا بالآخر میری سفید پوشی کا بھرم ٹوٹ ہی گیا اتنا سننا تھا کہ وہ پولیس آفیسر بھی رو پڑتا ہے اس بوڑھے شخص کی فروٹ کی تھیلی پھینک دیتا ہے اور اسے گلے لگاتا ہے اور ابنی آنکھوں سے بھی آنسو برساتا ہے اور اپنے گھر کے لئے جو بھی افطاری کا سامان لے کر رکھا تھا وہ سب اس بوڑھے شخص کو دیدیتا ہے اور کہتاہے کہ وعدہ کرو کہ روزانہ بعد نمازِ عصر مجھ سے ملاقات کروگے اس بوڑھے شخص نے وعدہ کیا اور اپنے گھر کے لئے روانہ ہوگیا ،، اب پولیس آفیسر کا معاون اس کا ہمراہی پوچھتا ہے کہ سر: آپ نے اس سے روزانہ ملاقات کرنے کا وعدہ کیوں لیا ہے تو وہ آفیسر جواب دیتا ہے کہ کل سے روزانہ اپنے گھر کے ساتھ اس بوڑھے چاچا کے گھر کے لئے بھی افطاری کا سامان لینا ہے اور اس چاچا کے آنے پر انہیں دینا ہے اسی وجہ سے روزانہ ملاقات کا وعدہ لیا ہے ہو سکتا ہے کہ اللہ ہماری اس نیکی کو قبول کرلے ہماری یہ ادا پاک پروردگار کو پسند آجائے تو ہمارا بیڑہ پار ہو جائے گا ۔
javedbharti508@gmail.com
Javed Akhtar Bharti
+++++++++++++++++++++++++++
Comments
Post a Comment