جیسی کرنی ویسی بھرنی نہ مانے تو کرکے دیکھ!!🖊️ تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاوید اختر بھارتی

جیسی کرنی ویسی بھرنی نہ مانے تو کرکے دیکھ!!
(کر بھلا تو ہو بھلا ) 
تحریر: جاوید بھارتی
اکثر ضعیف العمر لوگوں کے ذریعے یہ سنا گیا ہے کہ بھلائی کر بھلا ہوگا ، برائی کر برا ہوگا تو کسی نے کہا ہے کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی نہ مانے تو کرکے دیکھ ، جنت بھی ہے دوزخ بھی ہے نہ مانے تو مرکے دیکھ ،، بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کسی کے لئے گڈھا نہ کھود ورنہ تیرے لئے بھی گڈھا تیار ہوگا اور عام طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ناحق کسی کے لئے گڈھا تیار کرنے والا خود ایک دن اسی گڈھے میں گرتا ہے کیونکہ یہ دنیا انتقام کی ہے یہاں انتقامی کارروائیاں ہوتی ہیں سماجی ، معاشی، سیاسی ، اقتصادی ہر اعتبار سے دیکھا جاتا ہے۔

دنیا میں جینے کے لئے بھی حوصلہ چاہئے اور کچھ کہنے کی صورت میں جواب کو برداشت کرنے کی طاقت بھی ہونا چاہئے اسی لئے کہا گیا ہے کہ جانکاری نہ ہونے کی صورت میں کسی سے سوال کرنے کا مقصد یہ ہوتاہے کہ ہماری معلومات میں اضافہ ہوجائے اور آزمائش کی صورت میں سوال کرنے کا مقصد یہ ہوتاہے کہ سامنے والے کا امتحان ہوجائے اور اس کی معلومات کا اظہار ہوجائے ،، لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ خود اپنی معلومات کے لئے سوال کرنا بہت اچھی بات ہے لیکن آزمانے کے لئے سوال ہے تو پھر سوال کرنے والے کو خود جواب معلوم ہونا چاہئے ورنہ پھر ممتحن کو کسی کا امتحان لینے کا کوئی حق نہیں ہے ۔

گداگری کا پیشہ اختیار کرنے والے بھی اکثر صدا لگاتے ہیں کہ کربھلا تو ہو بھلا ،، اے اللہ کے بندے تو دے اللہ کے نام پر اللہ تیرا بھلا کرے گا ، تیرے بال بچے خوشحال ہوں گے ، اللہ تجھے خوب دولت سے مالامال کرے گا۔

 ایک سائل جب کسی کے دروازے پر یہ صدائیں لگاتا ہے تو مکان مالک کے ذہن میں کبھی کبھی یہ بات ضرور آتی ہو گی کہ میرے لئے دولت کی فراوانی کے لئے دعا کرنے والا خود اپنے لئے کیوں نہیں کرتا لیکن مکان مالک اپنی زبان سے یہ بات نہیں کہتا ہے کہ کیونکہ اسے اندر سے احساس ہوتا ہے کہ میرا یہ جملہ کہیں مجھے تکبر کے زمرے میں شامل نہ کرادے ،، دوسری طرف سائل کے ذہن میں بھی یہ بات ضرور آتی ہوگی کہ مجھے اس دروازے سے یا مکان سے پانچ دس روپے ہی تو ملیں گے اور میں لمبی لمبی دعائیں دے رہا ہوں کہیں مکان مالک کہہ نہ دے کہ او اللہ کے بندے یہ دعائیں تو اپنے لئے کیوں نہیں کرتا کیا تجھے مال ودولت کی ضرورت نہیں ہے مگر ہاں ایک سائل جب یہ سوچ لے گا تو پھر صدا لگا ہی نہیں پائے گا اس طرح بغیر کسی لاگت کے اسے جو آمدنی ہوتی ہے اس آمدنی سے وہ محروم ہو جائے گا اسی لئے اس طرح کی بات ذہن میں آنے کے بعد بھی وہ نظر انداز کرتا ہے اور گداگری کے پیسے پر قائم رہتا ہے ۔

چھوٹی چھوٹی کتابوں میں کہانیاں پڑھی گئی ہیں کہ ایک عورت نے بلی پال رکھی تھی لیکن اسے بھر پیٹ کھانا نہیں دیتی تھی اور دھوپ میں اسے باندھ کر رکھتی تھی جبکہ بظاہر وہ نماز روزے کی پابند تھی لیکن جب اس کا آخری وقت آیا تو اسے بیحد تکلیف اٹھانی پڑی اور سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔

دوسری عورت بظاہر بدچلن تھی لوگ بھی اسے نفرت و حقارت سے دیکھا کرتے تھے لیکن ایک دن اس نے دیکھا کہ راستے میں ایک جگہ کتا پیاسا ہے اور پیاس کی وجہ سے تڑپ رہا ہے اس عورت کو ترس آگیا اس نے ڈول کا انتظام کیا اور اس ڈول میں اپنا دوپٹہ تک استعمال کیا اور کنویں سے پانی نکالا اور کتے کو پلایا وہ پانی پینے کے بعد کچھ دیر تک اس عورت کے پاس ہی کھڑا رہا تو اس عورت نے کہا جاؤ تو وہ کتا چلا گیا اس کا جب آخری وقت آیا تو یوں آیا کہ بیٹھے بیٹھے طبیعت کچھ ناساز ہوئی اور وہ بستر پر لیٹی اور لیٹتے روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی اور اس عورت کا انتقال ہوگیا تجہیز وتکفین کے بعد بہت سے لوگوں نے خواب دیکھا کہ وہ قبر میں بڑے آرام سے ہے اس کی قبر میں بڑی روشنی ہے ،، یہ رہا بھلائی کرنے کا انجام جو کہ سبق آموز ہے۔

زید گھر سے باہر نکلتا ہے تو بکر اس کا گریبان پکڑ کر کہتاہے کہ تو انتہائی گھٹیا انسان ہے مجھے تجھ سے نفرت ایک تو تیرے کپڑے بوسیدہ ، پاؤں میں جوتے بھی نہیں یہ کہتے ہوئے اسے تھپڑ بھی مارا اور دھکا بھی دیا اب زید آنکھوں میں آنسو لئے مسجد پہنچتا ہے وضو بناکر مسجد کے اندر داخل ہوتا ہے تو دیکھتا ہے کہ بکر پہلی صف میں بیٹھا ہوا وظیفہ پڑھ رہا ہے۔

بکر دوسرے صف میں بیٹھ کر دعائیں کرنے لگا کہ ائے اللہ آج ایک شخص نے دولت کے گھمنڈ میں مجھے تھپڑ مارا میں تیرے دربار میں آیا تو وہ پہلی صف میں موجود ہے ،، کیا تو دل دکھانے والے کو پسند کرتاہے ، کیا تو دل توڑنے والے کو پسند کرتاہے ؟ غیب سے صدا آئی کی نہیں میں کسی کا دل دکھا نے والے کو پسند نہیں کرتا جو حقوق اللہ ہیں اسکی ادائیگی میں کوتاہی کو میں معاف کروں نہ کروں یہ میری مرضی لیکن جو حقوق العباد ہیں اس کی ادائیگی میں کوتاہی کو میں اس وقت تک معاف نہیں کرسکتا جب تک میرا بندہ خود معاف نہ کرے ۔
جماعت کا وقت ہوگیا مؤذن نے اقامت کہی اور امام نے تکبیر تحریمہ کے ساتھ نیت باندھی زید نے بھی نیت باندھی نماز مکمل ہوئی تو زید و بکر دونوں مسجد کے باہر نکلے تو بکر نے کہا کہ میں نے جو تیرے ساتھ معاملہ کیا ہے مجھے اس پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے بتا اب تو کیا کرے گا زید نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں کرنا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ سے میری بات ہوئی ہے میں نے یہ معاملہ اسی کے سپرد کردیا ہے اور وہی انصاف کرے گا ۔ 

دروازے پر دستک ہوتی ہے جب دروازہ کھولا تو سامنے پولیس آفیسر کو کھڑا پایا آفیسر نے سوال کیا کہ تم نے شکایت کی تھی تو دروازہ کھولنے والے نے کہا ہاں میں نے شکایت کی تھی لے جائیے اس بڈھے کو جیل کی کوٹھری میں بند کر دیجئیے آفیسر نے پوچھا کون ہے یہ تو جواب ملا کہ میرا باپ ہے آفیسر حیرت میں پڑگیا کہ ایک بیٹا باپ کی شکایت کررہاہے اور جیل میں بند کرنے کی بات کررہا ہے ادھر باپ ہے کہ ایک کونے میں بیٹھ کر گہری سوچ میں ڈوبا ہوا ہے ، چہرے اور پیشانی پر پسینہ بھی ہے اور لکیریں بھی ابھری ہوئی ہیں۔
آفیسر اس ضعیف العمر کے پاس جاکر سوال کرتا ہے کہ چچا کیا بات ہے باپ جواب دیتا ہے کہ کوئی بات نہیں آپ مجھے لے چلو جیل میں بند کردو ،، پولیس آفیسر پوچھتا ہے کہ آپ کس سوچ میں ڈوبے ہوئے ہیں مجھے بتائیے تو آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے باپ کہتاہے کہ ڈاکٹروں کے پاس گیا، حکیموں کے پاس گیا، سادھو سنتوں کے پاس گیا ، پیروں اور فقیروں کے پاس گیا ، جھاڑ پھونک کرنے والوں کی چوکھٹ پر گیا ، مولوی مولانا سے دعا کروایا ، راتوں میں جاگ جاگ کر گڑگڑایا اور اللہ سے فریاد کیا کہ مجھے بیٹا دیدے تب جاکر مجھے ایک بیٹا ملا ۔

میں نے اسے گود میں لے کر کھلایا، سینے سے لگایا، انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا ، پال پوس کر بڑا کیا ، پڑھایا لکھایا اور آج میرا بیٹا اس قابل ہوگیا کہ میری شکایت کررہاہے اور مجھے جیل میں بند کرانے کی بات کررہا ہے بس یہی سرجھکائے سوچ رہا ہوں اتنا سنتے ہی پولیس آفیسر کھڑا ہوجاتا ہے اور بیٹے کو زوردار طمانچہ مارتے ہوئے کہتاہے کہ تجھے شرم نہیں آتی ہے کہ اپنے باپ کی تو شکایت کررہاہے ،، ارے تجھے نہیں معلوم کہ باپ اگر غلطی بھی کرے تو بیٹے کو شکایت کرنے کا حق نہیں ، باپ ڈانٹے پھٹکارے تو بھی باپ سے اونچی آواز میں بات کرنے کا بھی حق نہیں ،، آج تو جو کچھ ہے اپنے باپ کی وجہ سے ہے ان کے ساتھ تو جیسا سلوک کرے گا ویسا ہی کل تیرا بیٹا بھی تیرے ساتھ کرے گا ،، باپ کے ساتھ اچھا سلوک کر وہ تجھے دعائیں دیں گے اور ایک بیٹے کے لئے باپ کی دعا ہر پیر فقیر کی دعا سے بڑھ کر ہے ۔ 
javedbharti508@gmail.com
        +++++++++++++++++++++++++++
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی

Comments

Popular posts from this blog

ہمارے لیے علم سرمایہ ہے اور علم دین عظیم سرمایہ ہے

یوپی الیکشن: پھر لفظ سیکولر گونجنے لگا! تحریر: ‏جاوید ‏اختر ‏بھارتی

کس کو بتاؤں حال دل بے قرار کا!! ( افسانہ) تحریر : جاوید بھارتی