اف: مسلمانوں میں بڑھتا ہوا اختلاف!! تحریر :: جاوید اختر بھارتی
اف ؛ مسلمانوں میں بڑھتا ہوا اختلاف!!
( اللہ رحم کرے)
تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاوید بھارتی
آج مسلمانوں کے اندر انگنت و بے شمار اختلافات ہیں ،، محرم الحرام کے مہینے سے لے کر ذی الحجہ کے مہینے تک اختلاف ، عاشورہ سے لے کر شب برات تک اختلاف ، واقعہ کربلا پر اختلاف ، بارہ ربیع الاول کے موقع پر جشن عیدمیلادالنبی منانے اور نہ منانے پر اختلاف ، گیارہویں شریف آجائے تو اس پر بھی اختلاف ، شب برات کی فضیلت پر اختلاف ، رمضان کا مہینہ آجائے تو سحری و افطار کے اوقات پر دو چار منٹ کا معاملہ لے کر اس پر بھی اختلاف،، کچھ مواقع اور لمحات ایسے ہیں کہ جن کو انجام دینے پر اتفاق ہے تو اس کے طریقوں پر اختلاف ہے غرضیکہ مسلمانوں کی پہچان ہی بنتی جارہی ہے آپسی اختلافات کا شکار ہونے کی،، پھر بھی ایک طرف کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور دوسری طرف تعلیم یافتہ تو تعلیم یافتہ اور جو تعلیم سے کوسوں دور ہیں وہ بھی مسلکی اور فرقہ بندی کی بنیاد پر بحث و مباحثہ کرتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو ساتھ ہی ایک دوسرے فرقے کے علماء کو بھی برا بھلا کہا جاتا ہے پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ علماء کرام کا احترام لازمی ہے اور جو قوم علماء کرام کا احترام نہیں کرتی وہ قوم تباہ ہوجاتی ہے اور جو حال ہے اس کے تناظر میں تو یہ کہا جانا چاہئے کہ اپنے اپنے مسلک اور اپنے اپنے فرقہ کے علماء کا احترام لازمی ہے ۔
نماز ہی کو لے لیں تو ہر مکتب فکر کا اتفاق ہے کہ نماز ہر حال میں ضروری ہے اور نماز ہی افضل العبادات ہے یعنی نماز ہی سب سے افضل عبادت ہے اور روز محشر سب سے پہلے نماز ہی کے بارے میں سوال ہوگا لیکن نماز کے طریقے پر بھی اختلاف ہے اقامت کہنے پر اتفاق تو ہے مگر اقامت کب کہا جائے سارے مقتدی کھڑے ہو جائیں تب اقامت کہا جائے یا تنہا ایک شخص کھڑا ہوکر اقامت کہے اور باقی سارے لوگ قد قامت الصلوٰۃ پر کھڑے ہوں اس پر بھی اختلاف ، تکبیر تحریمہ کہنے پر اتفاق ہے تو ہاتھ باندھنے اور نہ باندھنے پر اختلاف ہے ، کسی قدر ہاتھ باندھنے پر اتفاق ہے تو کہاں باندھیں سینے پر ، ناف کے نیچے یا ناف کے اوپر اس پر بھی اختلاف ہے۔
اب قیام پر اتفاق ہے تو حالت قیام پر اختلاف ، کسی کا کہنا ہے کہ پاؤں اتنا پھیلاؤ کہ دنبہ گزر جائے ، کسی کا کہنا ہے کہ کندھے سے کندھا ملا ہونا چاہئے ، کسی کا کہنا ہے کہ ٹخنے سے ٹخنہ ملاہونا چاہئے ، کسی کا کہنا ہے کہ ایک دوسرے کے پاؤں کی چھوٹی انگلی ٹچ ہونا چاہئے اب بتائیے ساری باتیں یہ سارے طریقے کیسے ممکن ہو سکتے ہیں ۔
التحیات پڑھنے پر اتفاق ہے تو اشہد ان لا الہ الا اللہ پر انگلی اٹھا کر گرانے کے بعد کی حالت پر اختلاف ہے ، انگلی گراکر سیدھی رہے یا جھکی رہے یا مسلسل حرکت میں رہے اس پر بھی اختلاف ہے،
ایک طرف کہا جاتا ہے کہ منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک ، حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک ، ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک ، کچھ بڑی تھی ہوتے جو مُسلمان بھی ایک ،، یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو ،، تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو،، فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں ،، کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ۔
اب تو یہ اختلاف بہت ہی بھیانک رخ اختیار کرتا جارہا ہے،، یعنی مسلک ، مکتب فکر اور فرقہ بندی کی زنجیروں کو توڑتے ہوئے آپس میں ہی اختلاف ہونے لگا پیری مریدی کے نام پر اختلاف ، خانقاہوں کے نام پر اختلاف ، کرامات اولیاء کے نام پر اختلاف ، مدارس و مساجد کے نام پر اختلاف ، تعزیہ داری کے نام پر اختلاف ، نوحہ خوانی و ماتم کے نام پر اختلاف ، عرس کے اہتمام و اس کے طریقوں پر اختلاف حتیٰ کہ جس بنیاد پر اختلاف ختم ہونا چاہئے اور جس مقدس ہستی نے مدرسۃ النبی میں ایسی تعلیم دی ایسا درس دیا کہ ابو بکر صدیق اکبر ہوگئے، عمر بن خطاب فاروق اعظم ہوگئے، عثمان بن عفان کامل الحیا ولایقان ہو گئے اور علی بن ابی طالب باب العلم ہوگئے اس مقدس ہستی کے اسوۂ حسنہ کا کامیابی کی ضمانت قرار دینے پر اتفاق ہے تو ان کی تاریخ ولادت پر اختلاف ہے ، سفر معراج پر اتفاق ہے تو دیدار الہی پر اختلاف ہے۔
ائے مسلماں کبھی تو سینے پر ہاتھ رکھ کر غور کر کہ تو کس سمت اپنا قدم بڑھا رہا ہے ،، چوبیس اگست کو بعد نمازِ مغرب جہاں بہت سے اداروں نے اعلان کردیا کہ انتیس صفر المظفر کو ماہ ربیع الأول کا چاند نظر آگیا تو وہیں کچھ ادارے رات بھر خاموش رہے اور اپنے اپنے ذرائع سے اپنے اپنے مسلک اور مکتب فکر کی شناخت کے ساتھ معلومات کرتے رہے تو کچھ ادارے کہنے لگے کہ انتیس صفر المظفر کو ماہ ربیع الاول کا چاند نظر نہیں آیا چنانچہ پچیس اگست 2025 ماہ ربیع الاول کی پہلی تاریخ نہیں بلکہ صفر المظفر کی تیس تاریخ ہوگی ،، سوشل میڈیا پر لیٹر پیڈ دوڑتے رہے بھلے ہی اڑتالیس گھنٹے بعد شدت پسندی پر مبنی لیٹر پیڈ سوشل میڈیا سے غائب ہونے لگے ۔
چاند نظر آگیا ،، چاند نظر نہیں آیا ،، اس موضوع پر بحث و مباحثہ شروع ہوگیا یہ سلسلہ جب تھما تو دوسرا سلسلہ چل پڑا کہ میلادالنبی کا جشن منانا چاہئے نہیں منانا چاہئے اور اس بحث و مباحثے میں علماء و جہلا دونوں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور اتنا حصہ لیتے ہیں کہ یہ بھی خیال نہیں رہتا ہے کہ غیر اقوام ، دوسرے مذہب کے لوگ ہماری تلخ کلامی ، ترش کلامی اور طنزیہ جملے کو قیچ کرکے ہم سے سوال کر بیٹھیں تو ہم کیا جواب دیں گے ؟
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کچھ ایسے اختلاف ہیں جو ضد اور ہٹ دھرمی پر مبنی ہیں جیسے محرم الحرام کے مہینے میں تعزیہ الم کے ساتھ ڈھول تاشہ بجانا جہاں ایک طرف علماء کرام اکثریت میں اسے ناجائز کہہ رہے ہیں وہیں کچھ علماء اسے جائز قرار دے رہے ہیں اس دلیل کے ساتھ کہ یزید کا نام مٹ گیا اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام باقی ہے ان کا مشن باقی ہے ان کی تحریک باقی ہے تو گویا جس کا مشن باقی ہو تو اس خوشی میں بالکل ڈھول تاشہ بجانا جائز ہے ،، اس ہٹ دھرمی کا جواب تو یہی ہوگا کہ باپ کے مرنے کے بعد اس کی اولاد باقی ہے ، اس کا کاروبار باقی ہے ، اس کا تعمیر کیا ہوا مکان باقی ہے تو ایسی صورت میں باپ کی میت کاندھوں پر اٹھا کر ڈھول تاشہ بجاتے ہوئے قبرستان جانا چاہئے ، ڈھول تاشہ کے ساتھ تجہیز وتکفین و تدفین کرنا چاہئے اور ہر سال وصال کی تاریخ کو قرآن خوانی و ایصال ثواب نہ کرکے دروازے پر ڈھول تاشہ بجانا چاہئے اور لوگوں کو بتانا چاہئے کہ آج ہی کے دن ہمارے باپ کا انتقال ہوا تھا اسی خوشی میں ڈھول تاشہ کا انتظام و اہتمام و انعقاد کیا گیا ہے ۔
ولادت سید الکونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مہینے و موقع پر جشن منانا خوشی منانا اس موضوع پر اختلاف کرنا یہ بھی ایک طرح سے ضد ہی نظر آتی ہے ،، روایات میں ملتا ہے کہ جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ماں کے شکم میں تھے تو فرشتے حضرت آمنہ کے لئے تحائف لے کر آیا کرتے تھے پھر یہ آمد رسول کا جشن اور خوشی نہیں تو اور کیا ہے ؟
حضرت آمنہ کے جسم سے خوشبو آتی تھی ، پورا گھر خوشبو سے معطر رہا کرتا تھا پھر یہ آمد رسول کا جشن اور خوشی نہیں تو اور کیا ہے ؟
سید عرب و عجم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تو حلیمہ سعدیہ جب قافلے کے ہمراہ چلیں عرب کے دستور کے مطابق بچے کی تلاش میں دودھ پلانے کے لئے تو ان کی اونٹنی بہت کمزور تھی ، قافلے میں سب سے پیچھے تھی تمام دائیاں بچے لے لے کر مطمئن ہوگئیں اور حلیمہ سعدیہ کی قسمت میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم تھے جب نبی پاک کو لے کر دائی حلیمہ واپس چلیں تو اب وہی اونٹنی برق رفتاری کا اظہار کرنے لگی حلیمہ سعدیہ قافلے میں سب سے آگے نکل گئیں اور جب گھر آئیں تو ہریالی ہی ہریالی اور خوشحالی ہی خوشحالی تمام بکریاں بھی بحال اور خوشحال ہوگئیں بچپن ہی میں یہ معجزہ جھما جھم رحمتوں برکتوں کی بارش،، اب بتائیے یہ آمد رسول کا جشن اور خوشی نہیں تو اور کیا ہے ؟
آمد رسول سے قبل لڑکیاں زمین میں زندہ دفن کردی جاتی تھیں،، جس دن نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی اس دن جتنی بھی ولادت ہوئی ان میں کوئی لڑکی پیدا نہیں ہوئی،، اس لئے کہ اللہ کو یہ گوارہ ہی نہیں ہوا کہ جس دن میرے محبوب کی دنیا میں آمد ہو اس دن پیدا ہونے والی لڑکی زندہ دفن ہو،، یہ بات بارہا علماء کرام سے سنا گیا ہے ،، پھر یہ آمد رسول کا جشن اور خوشی نہیں تو اور کیا ہے ؟
وہ آتش کدہ بجھ گیا جو ایک مدت سے جل رہا تھا جسے دیکھ کر لوگوں کے اندر گھمنڈ پیدا ہوتا تھا اور لوگ ظالم بن جایا کرتے تھے ،، آمد رسول کے موقع پر آتش کدہ کا بجھنا یہ جشن آمد رسول و خوشی نہیں تو اور کیا ہے ؟
آمد رسول سے قبل جہالت کی انتہا تھی ، عرب کے لوگ ایک ایک روٹی اور ایک ایک بوٹی کے لئے قتل وغارت گری کیا کرتے تھے ، جوا اور شراب عام تھی دسترخوان پر کھانے کے ساتھ پانی نہیں شراب رکھا کرتے تھے ، جوا کھیلنے میں اپنی بیویاں تک ہار جایا کرتے تھے ، باپ کے مرنے کے بعد بیٹا اپنی ماں کو بیوی بنا لیا کرتا تھا ، بیوہ عورت کو منحوس مانا جاتا تھا ، بچی پیدا ہوتی تو زمین میں زندہ دفن کردیا جاتا تھا،، محمد سے پہلے تھا عالم نرالا، لگایا تھا شیطاں نے ظلمت کا تالا، کہیں تیر و نشتر کہیں تیغ و بھالا، دوشنبہ کا دن تھا سحر کا اجالا ، کہ مکے میں پیدا ہوا کملی والا( صلی اللہ علیہ وسلم)
سعودی عرب میں سعود خاندان کی حکومت قائم ہوئی تو 23 ستمبر کو نیشنل ڈے منایا جانے لگا ، یوم سعودیہ منایا جانے لگا جبکہ نبی پاک کی ولادت کا دن انسان کی آزادی کا دن ہے ، سسکتی بلکتی اور دم توڑتی ہوئی انسانیت کی آزادی کا دن ہے ،، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت عالم انسانیت کے لئے رب کائنات کا عظیم تحفہ ہے اور تحفہ حاصل ہونے پر خوشی ہوتی ہے اور تحفہ حاصل ہونے پر یقیناً خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور کیا بھی جانا چاہئے ۔
ہاں جشن عیدمیلادالنبی و جلوس محمدی کے تقدس کو برقرار رکھنا ضروری ہے نماز چھوٹنی نہیں چاہئے ، کوئی بھی خلاف شرع کام نہیں ہونا چاہئے ، باجا نہیں بجنا چاہئے ، کیک نہیں کاٹا جانا چاہئے ، کسی کی دلآزاری نہیں ہونا چاہئے اور نعرہ بھی ایساہی لگایا جانا چاہئے کہ اسلام کی صداقت و حقانیت کا اعلان ہو ، اسلامی تعلیمات کا اعلان ہو ، سیرت النبی کا اعلان ہو ،، اس لئے کہ ہم اس مقدس ہستی کا جشن منارہے ہیں جو رحمۃ للعالمین ہیں اور محبوب رب العالمین ہیں ۔
راقم الحروف کے اس مضمون کو مسلکی نظر سے نہ دیکھا جائے جو جس مسلک کا ماننے والا ہے وہ اس پر قائم رہے یا نہ رہے یہ اس کی مرضی لیکن خدا کے واسطے اختلافات کی زنجیروں کو توڑئیے کم از کم ولادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جشن و خوشی کو اختلافات کا رنگ نہ دیجیے ، جس کا کا کلمہ پڑھتے ہیں اس کی آمد پر خوشی کا اظہار کیجئیے ،، ہاں اسے سیر وتفریح کا ذریعہ ہرگز ہرگز نہیں بنائیے ، غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں کے لئے سہارا بنئیے، نزدیکی اسپتالوں میں پہنچ کر ذات برادری اور مسلک و مذہب پوچھے بغیر مریضوں کی عیادت کیجئیے، انہیں پھل فروٹ دیجئے ، غریب مریضوں کا مالی تعاؤن کیجیئے ، لوگوں کو پانی پلائیے یہ سب کچھ کرکے اچھا انسان بننے کا ثبوت پیش کیجئے ا نسانیت کو فروغ دیجئیے اور مسلمان ہونے کا حق ادا کیجئیے۔
++++++++++++++++++++++++++++
Comments
Post a Comment