بھیک مانگنا چھوڑ دیا!! تحریر : جاوید اختر بھارتی

بھیک مانگنا چھوڑ دیا! 
تحریر : جاوید بھارتی 
چاہے فٹپاتھ پہ رومال بچھاکر مانگے یا دروازے پر دستک دے کر مانگے، چاہے کوئی لاؤڈ اسپیکر سے مانگے یا بغیر لاؤڈ اسپیکر کے مانگے بہرحال بھیک مانگنا غلط ہے گداگری مذہب اسلام کے اندر ممنوع ہے۔ 
ایک شخص بھیک مانگتے ہوئے ایک اونچی بلڈنگ کے پاس پہنچتا ہے اور دروازے پر دستک دیتا ہے کہ او اللہ کے بندے اللہ کے نام پر ایک روپیہ دیدے اللہ تیری بلڈنگ کو اور اونچی کرے گا مکان مالک صدا سن کر نیچے آتا ہے اور کہتاہے کہ کم از کم میری اوقات کے اعتبار سے مانگا ہوتا اتنی اونچی بلڈنگ شاندار عمارت دروازے پر کھڑا ہوکر ایک روپے کا سوال کررہا ہے جا میری نظروں سے دور ہوجا ۔
دوسرے دن بھکاری پھر پہنچتاہے اور صدا دیتا ہے کہ او اللہ کے بندے تجھے اللہ نے خوب نوازا ہے تیرا مکان بڑا عالیشان ہے دے اللہ کے نام پر ایک لاکھ روپیہ اللہ تبارک وتعالیٰ تجھے چھپر پھاڑ کر دے گا مکان مالک دندناتے ہوئے دروازے پر آتا ہے اور کہتا ہے او بھکاری اپنی اوقات دیکھ کر مانگ بھکاری کہتاہے کہ او سیٹھ میں اپنی اوقات دیکھوں پھر تمہاری اوقات دیکھوں اس طرح میں دن بھر اوقات دیکھتا رہوں گا تو بھیک کیسے مانگوں گا۔

دوسرا بھکاری آنکھوں سے نابینا تھا پھر کاندھوں پر تھیلا اور جھولا ٹانگے صدائیں لگاتا تھا ایک دن صدا لگاتے لگاتے بادشاہ کے دربار میں پہنچ گیا۔ 
دروازے پر دربان نے روکا لیکن بادشاہ کی نظر پڑگئی اور بادشاہ نے کہا کہ اسے آنے دو پھر کیا تھا دربان نے خود بادشاہ تک پہنچایا ،، بادشاہ اس فقیر سے پوچھتا ہے کہ جناب عالی آپ کا اسم گرامی کیا ہے تو فقیر نے کہا کہ ،، دولت،، بادشاہ نے کہا کہ دولت اور اندھی ،، فقیر نے کہا جی بادشاہ سلامت دولت اگر اندھی نہ ہوتی تو آپ کے پاس آتی ؟ فقیر کی اس بات میں سوال بھی ہے ، حیرت انگیزی بھی ہے ، تعجب بھی ہے اور آپ بیتی بھی ہے۔ 
بادشاہ نے کہا کہ یقیناً آپ کی بات میں بہت دم ہے اور درد بھی ہے آپ کو اپنی بات کی وضاحت کرنے کی اجازت ہے آپ کو جو کہنا ہے کھل کر کہیں ۔
اب فقیر بولنا شروع کرتا ہے ،، بادشاہ سلامت،، میں نابینا ہوں اور میرا نام دولت ہے اس لئے آپ کے پاس آیا ہوں آپ کے دربار میں آیا ہوں اگر میری آنکھوں میں بینائی ہوتی تو آپ کا محل دیکھ کر ، دروازے پر دربانوں کی بھیڑ دیکھ کر آنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی ،، اس طرح دولت نامی فقیر آپ کے دربار تک پہنچ گیا ،، یہ ایک پیرائے سے واضح ہوگیا کہ دولت اندھی نہ ہوتی تو آپ کے پاس کیوں آتی۔
اب دوسرے پیرائے سے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس محل ہے ، سونے چاندی کے زیورات ہیں ، دروازے پر دربان کھڑے ہیں ہر کسی کو محل میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن دولت ہے جو آپ کے پاس چلی آرہی ہے جبکہ میرے پاس پہننے کے لئے کپڑے نہیں ، سر چھپانے کے لئے چھت نہیں ، سونے کے لئے بستر نہیں ، پیٹ بھرنے کے لئے وقت پر کھانا نہیں اور کھانے کا انتظام کرنے کے لئے میرے پاس دولت نہیں ،، بات گھوم پھر کر پھر وہیں آگئی کہ دولت اندھی نہ ہوتی تو آپ کے پاس کیوں آتی جبکہ اپنی غربت کی کہانی میں نے بیان کردی بادشاہ سلامت اب بتائیے دولت کی ضرورت آپ کو ہے یا مجھ کو ہے؟
اگر میرے پاس دولت آتی تو میری ساری مصیبتیں دور ہو جاتیں میرے سارے مسائل حل ہوجاتے مگر دولت ہے کہ میرے پاس نہیں آتی بلکہ آپ ہی کے پاس آتی ہے بادشاہ خوش ہوتا ہے اور انعام واکرام سے نواز تا ہے۔

سچائی یہی ہے کہ جہاں ایک طرف لوگ مجبوری میں گداگری کا پیشہ اختیار کرتے ہیں وہیں بہت بڑی تعداد ایسی ہے کہ جو عادت سے مجبور ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو بھیک مانگنا خاندانی پیشہ سمجھتے ہیں اور بھیک مانگنے والوں میں ایسے بے غیرت بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو مسجدوں کے دروازوں پر کھڑے ہوکر بھیک تو مانگتے ہیں مگر مسجد میں داخل ہوکر نماز ادا نہیں کرتے۔

ملک بھر میں آج بھی دو چیزیں نظر آتی ہیں ایک تو یہ کہ شرور و فتن اور نفرت و تعصب کے باوجود بھی مساجد کی چوکھٹ سے شفا تلاش کی جاتی ہے اور دوسری یہ کہ اسی چوکھٹ پر بھیک بھی مانگی جاتی ہے جہاں تک بات مذہب اسلام کی ہے اور مسلمانوں کی ہے تو یہاں زکوٰۃ کا نظام بھی قائم ہے لیکن ہاں زکوٰۃ کے جو اصول وضوابط ہیں اس کے مطابق زکاۃ دیا جائے تو یقیناً غربت کا خاتمہ ہوسکتاہے مگر یہاں تو زکاۃ بھی اس انداز سے دی جاتی ہے کہ غربت کو بڑھاوا مل رہا ہے اور زکاۃ لینے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جوکہ بہت بڑا المیہ بھی ہے اور لمحۂ فکریہ بھی ہے۔ 

ہاں کبھی کبھی انسان مجبوری میں پھنس جاتاہے مثال کے طور پر سفر کے دوران جیب کٹ جائے ، سامان چوری ہوجائے اور سفر نامکمل ہو اور اسے مکمل کرنا ضروری ہو ، منزل مقصود تک پہنچنا لازمی ہو تو ایسی صورت میں وہ کانپتے ہونٹوں سے سوال کرتا ہے تو بہت سے اللہ کے بندے اس کی مدد بھی کرتے ہیں اور بہت سے لوگ طنز بھی کستے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ پیشہ ور بھکاری مذکورہ راستہ بھی اختیار کرچکے ہیں آئے دن بستی میں اہل وعیال کے ساتھ آجائیں گے کہ ہم کو فلاں جگہ جانا تھا راستے میں بیگ چوری ہوگیا سارا سامان اور پیسہ اسی بیگ کے اندر تھا ،، غرضیکہ انسان بے غیرت اور بے حیاء ہوتا جارہا ہے غریبوں ، مجبوروں کا حق مارنے میں اسے ذرہ برابر شرم محسوس نہیں ہوتی ۔

ایک صحت مند انسان جسے مانگ کر کھانے کی عادت پڑگئی روڈ پر ٹہلتے ہوئے اس کی نظر ایک کار پر پڑی وہ کار کے قریب پہنچتاہے کیا دیکھتاہے کہ اس کار میں ایک شخص بیٹھا حساب کتاب کررہاہے وہ صحت مند بھکاری انسان اسے مخاطب کرکے کہتا ہے کہ مجھے پیسوں کی بہت ضرورت ہے آج تو میں نے کھانا بھی نہیں کھایا ہے آپ مجھے پیسے دے کر میری مدد کریں اللہ آپ کو ستر گنا دے گا اللہ آپ کو اور زیادہ مالدار بنائے گا وہ شخص اپنی کار سے اترتا ہے اور کہتاہے کہ تو مجھے کہہ رہا ہے کہ اللہ تجھے بہت دے گا اور مجھ سے پیسہ بھی مانگ رہا ہے آخر بتا وہ اللہ کیا تجھے نہیں دے گا ؟ تو اپنے ہی لئے مانگ میرے لئے مت مانگ ،، یہ بات سن کر بھکاری کو جھٹکا لگا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر ایک درخت کے سائے میں جاکر بیٹھ گیا اور اس مالدار کے جملے پر غور کیا اور ساتھ ہی عہد کرلیا کہ اب مفت کی روٹی نہیں توڑنا ہے اور کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانا ہے ۔

دوسرے دن صبح کو نہا دھل کر کپڑے پہنتا ہے اور اسی درخت کے سائے میں جاکر بیٹھ جاتا ہے چہرہ اداس ہے ، سر جھکائے ہوئے ہے ایک شخص قریب آکر کہتاہے کہ یہ کچھ پیسے لے لو جاؤ کچھ کھا پی لو اس نے کہا کہ نہیں ،، میں نے بھیک مانگنا چھوڑ دیا ہے آج تو وہی دے گا تو لوں گا جس نے تم کو دیا ہے اور جس نے کسی کو اتنا دیا ہے کہ اس کے پاس کار بھی ہے اور بنگلہ بھی ہے اور وہ مجھ سے کہتا ہے کہ جو میرا رب ہے وہی تیرا بھی رب ہے ،، جاؤ لے جاؤ اپنا پیسہ مجھے بھیک نہیں چاہئے ،، وہ پیسہ دینے والا شخص واپس چلاگیا اور یہ درخت کے سائے میں بیٹھ کر کہتا ہے کہ ائے پروردگار میں نے اس کار مالک سے کہا تھا کہ میری مدد کرو اللہ تمہاری مدد کرے گا تو اس نے کہا کہ تو اپنے ہی لئے اللہ سے مدد کیوں نہیں مانگتا ،، ائے رب العالمین آج میں نے عہد کرلیا کہ تجھے سے مانگوں گا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ تیرے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے ۔ 

اللہ پر بھروسہ کرکے بیٹھا رہا تو کچھ دیر میں وہ پیسہ دینے والا شخص پھر آتا ہے اور کہتاہے کہ کیا میرے ساتھ کاروبار کروگے جو منافع ہوگا اس میں ہم دونوں کا آدھا آدھا حصہ ہوگا تو یہ شخص جواب دیتا ہے کہ ہاں میں تمہارے ساتھ کاروبار کروں گا ،، پھر دونوں ساتھ چل دئیے اور کاروبار کرنے لگے کچھ دنوں بعد یہ مالدار بن گیا اور اس نے بھی کار خرید لی ۔ 

ایک دن کار سے چلا کہ اس آدمی کو تلاش کیا جائے جس کی بات سے میں نے بھیک مانگنا چھوڑ دیا آخر اس شخص پر نظر پڑ ہی گئی کار اس کے پاس لے جاکر روکتا ہے اور گاڑی سے ابھی اترا ہی تھا کہ ایک بھکاری نے سوال کردیا کہ میری مدد کرو میں بھوکا ہوں ،، بھکاری سے اس نے کہا کہ میں تجھے کچھ بھی نہیں دوں گا تجھے کچھ بننا ہے تو ان سے بات کر اور انہیں سے مانگ وہ تجھے ایسا فارمولا بتائیں گے کہ تیرے دن بھی بدل جائیں گے ،، یہ نیا مالدار جس کی تلاش میں تھا وہ شخص کہتاہے کہ یہ تم کیا کہہ رہے ہو میں اسے کیا دوں گا اور میں تو تم کو بھی نہیں جانتا ہوں تب اس نے کہا کہ پہچانئیے محترم میں وہی ہوں جسے کبھی آپ نے کہا تھا کہ تو میرے لئے جو دعائیں دے رہا ہے وہ دعا تو اپنے لئے رب سے کیوں نہیں کرتا،، آپ کی بات سن کر میں نے بھیک مانگنا چھوڑ دیا اور اسی سے مانگنا شروع کردیا اور آج میں اس حال میں ہوں ،، آپ کا میں شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری غیرت کو للکارا جس کی وجہ سے میرے بازوؤں میں طاقت آئی اللہ پر میرا بھروسہ مضبوط ہوا اگر آپ نے اس دن جیب سے نکال کر چند سکے دیدئیے ہوتے تو میں آج بھی بھیک مانگتا پھرتا لیکن نہیں آپ کی باتوں سے مجھے حوصلہ ملا اور میں نے محنت کی کمائی کھانے کا فیصلہ کیا اللہ کا شکر ہے کہ آج میں بہت خوشحال ہوں اور بہت مالدار ہوں ۔ 
javedbharti508@gmail.com
       +++++++++++++++++++++++++++++++
جاوید اختر بھارتی ( سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی

Comments

Popular posts from this blog

ہمارے لیے علم سرمایہ ہے اور علم دین عظیم سرمایہ ہے

یوپی الیکشن: پھر لفظ سیکولر گونجنے لگا! تحریر: ‏جاوید ‏اختر ‏بھارتی

کس کو بتاؤں حال دل بے قرار کا!! ( افسانہ) تحریر : جاوید بھارتی