سری لنکا,بنگلہ دیش اور نیپال: کیا سے کیا ہوگیا!! ( تبدیلی کی لہر) تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاوید اختر بھارتی
سری لنکا بنگلہ دیش اور نیپال،، کیا سے کیا ہوگیا!!
( تبدیلی کی لہر )
تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاوید اختر بھارتی
کہاوت ہے کہ گھور اور گھوڑے کے دن ہمیشہ یکساں نہیں ہوتے گھور کہتے ہیں اس جگہ کو جہاں کوڑے کا انبار لگا رہتا ہو ایسی جگہ ہمیشہ یکساں نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہاں صفائی کرکے عالیشان محل تعمیر ہوسکتا ہے ، سرکاری یا نیم سرکاری دفاتر کی تعمیر ہوسکتی ہے مساجد ومدارس کی تعمیر بھی ہوسکتی ہے اور گھوڑے کے دن ہمیشہ یکساں نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ گھوڑا کبھی سواری ڈھوتا ہے اور کبھی تانگے کھینچتا ہے کبھی اس کی پشت پر کوئی انسان سج سنور کر دولہے کی شکل میں بیٹھتا ہے تو کبھی گھوڑا بادشاہ کی بگھی میں بھی استعمال ہوتاہے معاملہ واضح ہوگیا کہ گھور اور گھوڑے کے دن ہمیشہ یکساں نہیں ہوتے ۔
حکمراں جب تک یہ سوچتا ہے کہ پورا ملک میرا خاندان ہے اور ملک کا ہر شہری میرے خاندان کا ممبر ہے تو ایسے حکمراں کو انصاف کرنے کا حوصلہ ملتا ہے اور جب ایک حکمراں کو انصاف کرنے کا حوصلہ ملے گا تو یہ پورے ملک کے لئے فخر کی بات ہوتی ہے اور جس حکمران پر ملک کی عوام فخر کرے تو یہ ایک حکمراں کے لئے خوش قسمتی کی بات ہوتی ہے۔
ایک حکمراں کے لئے ضروری ہے کہ وہ بجلی ، پانی اور سڑک کو ترجیح دے اور روٹی کپڑا ، مکان کو بھی ترجیح دے یہ چھہ چیزیں چھہ خصوصیات ملک کی تعمیر و ترقی کی بنیاد مانی جاتی ہیں ،، نیپال کے حکمراں کے قدم شائد ان راستوں سے بہک چکے تھے ،، قانون و انصاف کی بالادستی قائم کرنے کے بجائے انصاف کا ہی گلا گھونٹا جانے لگا تھا اور نتیجہ یہ ہوا کہ صبر کا پیمانہ چھلک پڑا اور عوام سڑکوں پر اتر آئی آگزنی ہوئی قتل وغارت گری ہوئی اور نیپالی حکومت کا وجود تک ختم ہوگیا خدائی لہجے میں بات کرنے کا خواب دیکھنے والے حکمراں آج بھاگے بھاگے پھر رہے ہیں ۔
حکومت جب تانا شاہی کے راستے پر چلے گی تو عوام سے رابطہ کمزور ہوتا جائے گا اور جب عوام سے رابطہ اور رشتہ کمزور ہوگا تو عوام کے اندر حکومت کے تئیں ناراضگی بڑھے گی اور جب عوام ہی حکومت سے ناراض ہوجائے تو وہی حال ہوتا ہے جو سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال کا ہوا ہے ۔
حکومت کی جانب سے عوام کو جو مراعات اور سہولیات فراہم ہونی چاہئے اس مراعات اور سہولیات میں جب کمیشن خوری ہونے لگے گی تو حکومت کی بھی الٹی گنتی شروع ہو جائے گی اور جب الٹی گنتی شروع ہوگی تو صفر یعنی زیرو پر آنا ہی آنا ہے اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ عدلیہ اور میڈیا پر اپنا شکنجہ نہ کسے کیونکہ حکومت جب عدلیہ اور میڈیا دونوں کو اظہار خیال کی آزادی دے گی تو ایسی صورت میں حکومت کو چار چاند لگے گا۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ منبر پر خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو مجمع سے ایک شخص کھڑا ہوتاہے اور کہتاہے کہ ائے عمر خطبہ بعد میں دینا پہلے میرے سوال کا جواب دو جتنا کپڑا آپ کو ملا تھا اتنا ہی کپڑا ہمیں بھی ملا ہے لیکن قمیص تو نہیں بن پائی پھر تم تو اتنے تندرست و صحت مند ہو تمہاری قمیص کیسے تیار ہوئی اتنا سننے کے بعد امیر المؤمنین نے سوال کرنے والے کو ڈانٹا پھٹکارا نہیں بلکہ اپنے بیٹے سے کہا کہ بتاؤ میری قمیص کیسے تیار ہوئی تو امیر المؤمنین کے بیٹے نے کہا کہ میرے حصے کا کپڑا اور میرے باپ کے حصے کا کپڑا ملاکر سلا گیا ہے تو اس کی وجہ سے میرے باپ کی قمیص تیار ہوئی،، سوال کرنے والا شخص مطمئن ہوگیا اور کہا کہ ائے عمر اب خطبہ دو ہم سنیں گے۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب کسی کو گورنر بناتے تو اسے ہدایت دیتے کہ تم اونچی پوشاک نہیں پننا ، دروازے پر دربان نہیں رکھنا اور کوئی ملنے آئے تو ملنے سے انکار نہیں کرنا اور کسی فریادی سے سخت لہجے میں بات نہیں کرنا۔
امیر المومنین کے بتائے ہوئے اصول وضوابط اور ہدایت کے مطابق جو حکومت کرے گا تو یقیناً ملک کی عوام کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا اور حکمراں کو بھی عوام کی ناراضگی کا سامنا نہیں پڑے گا لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ آج کے حکمرانوں کے اندر خوش مزاجی بھرے انداز میں گفتگو کا فقدان پایا جاتا ہے ، سخت سیکیورٹی کے جھرمٹ میں رہتے ہیں ، غریب مزدور عوام سے ملنا پسند نہیں کرتے ہیں ، عہدے و منصب اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں غربت کے خاتمے کا نعرہ لگاتے اور لگواتے ہیں اور جیب و پیٹ اپنا بھرتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملک میں غربت ، بے روزگاری ، بدعنوانی کا گراف بڑھتا جاتا ہے اور ملک کی عوام بے بس ہوتی جاتی ہے۔
ملک کے وہ ادارے جو حکومت کو آئینہ دکھاتے ہیں ، تنقید برائے اصلاح کے جذبے اور ضابطے کے مطابق کام کرتے ہیں جب حکمراں ایسے اداروں پر شکنجہ کستے ہوئے اپنے مفاد میں استعمال کرنے لگتے ہیں تو عوام کی آواز دبانے کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دن ایسا آتا ہے کہ وہی عوام جو اپنے حکمرانوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں ، کبھی استقبال کرتے ہیں اور کبھی نعرہ لگاتے ہیں وہی عوام سر پر پگڑی اور کفن باندھ کر بے روزگاری ، بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کے خلاف سڑکوں پر آتے ہیں تو راہ میں روکاوٹ کھڑی کرنے جو بھی آتا ہے تو اس کی دھجیاں اڑجاتی ہیں ، اس کے شیش محل میں آگ لگ جاتی ہے ، وزراء کو دوڑا دوڑا کر اس کی اوقات یاد دلا دی جاتی ہے اور اولی جیسے حکمرانوں کا گھمنڈ چکنا چور ہو جاتا ہے ، اقتدار سے بے دخل کردیا جاتاہے اور ملک چھوڑنے پر بھی مجبور کردیا جاتاہے اور یہ سارا منظر نیپال میں دیکھنے کو ملا جبکہ نیپالی حکومت کو شری لنکا اور بنگلہ دیش سے سبق حاصل کرنا چاہئے تھا لیکن نیپالی حکمراں طاقت کے نشے میں چور تھے ، عوام کے خون پسینے کی کمائی پر ڈاکہ مارتے تھے اور عوام کی آواز کو زبردستی دباتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہاتھی نے ہی مہاوت کی دھجیاں اڑا ڈالی ،، 15 سے پچیس سال کی عمر تعلیم حاصل کرنے والی عمر ہوتی ہے ، اپنے مستقبل کو روشن بنانے کے لئے لائحہ عمل مرتب کرنے والی عمر ہوتی ہے ، اپنے آپ کو تراش کر اپنے اندر نکھار لانے کی عمر ہوتی ہے اسی لئے ایسی عمر میں سڑکوں پر نکلنا احتجاج کرنا اور تشدد کا مظاہرہ کرنا یقیناً غیر مناسب ہے یہ تو تذکرہ شدہ عمر کا ایک پہلو ہے اور اس عمر کا دوسرا رخ اور دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اسی عمر کے لوگوں کو جوان کہا جاتا ہے اور نوجوان کہا جاتا ہے تو یاد رکھیں دینی، مذہبی، سیاسی اور سماجی ہر اعتبار سے یہ ماننا ہوگا کہ جوان اور نوجوان قوم کی ، ملک و ملت کی ، سماج و معاشرے اور سوسایٹی کی عزت و آبرو ہوتا ہے ، قوم اور ملک و ملت کا مستقبل ہوتاہے ، ملک وملت کا سرمایہ ہوتاہے تو جب جوان اور نوجوان قوم کا سرمایہ ہوتاہے ، قوم کا مستقبل ہوتاہے تو اس کی قدر کرنا چاہئے اس کے جذبات اور احساسات کی صحیح ترجمانی ہونی چاہئے اگر ایسا کیا گیا ہوتا تو نیپال میں دھواں نہیں اٹھا ہوتا، آگ کے شعلے بلند نہیں ہوئے ہوتے اور سارے جوان اور نوجوان سڑک پر نہیں نکلے ہوتے اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نیپال کی معزول شدہ و فرار شدہ حکومت کا طریقہ کار انتہائی گھٹیا منمانہ اور بدعنوانی و بیمانی پر مبنی تھا جس کا احساس طلباء کو ہو گیا اور وہ بدعنوانی میں غرق حکمرانوں کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے کمر کس لئے اور میدان میں نکل پڑے۔
نیپال میں جو کچھ ہوا اس سے پوری دنیا کے حکمرانوں کو سبق حاصل کرنا چاہئے ۔
+++++++++++++++++++++++++++
Comments
Post a Comment