ایس آئی آر: تسلی بخش جواب دینے والا کوئی نہیں!!تحریر............. جاوید بھارتی

« ایس آئی آر »
تسلی بخش جواب دینے والا کوئی نہیں!!
تحریر: جاوید بھارتی 
ہندوستان کے بارہ صوبوں میں ایس آئی آر نافذ کیا گیا چار نومبر سے فارم بانٹا جانے لگا اور بھرا جانے لگا بڑی تعداد میں بی ایل او کی تعیناتی کی گئی ،، بڑی تعداد میں بی ایل او ایسے بھی دیکھے گئے جو خود ایس آئی آر کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ، ایسے بھی ایل او دیکھے گئے جو اپنے ہاتھوں سے فارم بھر نہیں پاتے آج بھی ہر طرف افراتفری کا عالم ہے کوئی 2025 کی ووٹر فہرست میں اپنا نام تلاش کررہا ہے تو کوئی اپنے باپ دادا ، نانا نانی کا نام تلاش کررہا ہے تو کوئی اپنی بیوی کا نام تلاش کررہا ہے کوئی اپنے بیٹے اور بیٹی کا نام تلاش کررہا ہے اور جب نہیں ملتا ہے تو چہرہ فق پڑ جاتا ہے ماتھے پر چنتا کی لکیریں ابھر جاتی ہیں پھر وہ ہر ایک سے سوال پوچھتا ہے کہ میرا کیا ہوگا لیکن اسے تسلی بخش جواب دینے والا کوئی نہیں ملتا 
اسی طرح بہت بڑی تعداد ایسی دیکھی گئی کہ ان کا نام 2003 میں ہے لیکن ان کے سرپرست کا نام نہیں ہے وہ بھی کافی فکر مند ہیں آج ہر شخص اپنے آباؤ اجداد کا نام تلاش کررہا ہے اور ان کو یاد کررہا ہے کہا تو یہ جاتا ہے کہ صرف ووٹر فہرست کی نظر ثانی مہم ہے تاکہ صاف شفاف ووٹر فہرست تشکیل پاسکے ،، اب لوگوں کو یہ تبصرہ کرتے دیکھا جاتا ہے کہ جب معاملہ ووٹر فہرست کا ہے تو اتنے دستاویز کیوں مانگے جا رہے ہیں اور اتنی جلد بازی کیوں کی گئی اور اتنا کم وقت کیوں دیا گیا جبکہ حکومت بھی جانتی ہے اور الیکشن کمیشن کو بھی معلوم ہے کہ ملک میں بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتی ،، اس لئے کم از کم ایک مہینہ تک فارم بانٹنے کا وقت دیا گیا ہوتا اور ایک مہینہ فارم بھرنے کا وقت دیا گیا ہوتا پھر ایک مہینہ فارم جمع کرنے کا وقت دیا گیا ہوتا تو اتنی بدحواسی کا عالم نہیں ہوتا - 
دوسری بات یہ ہے کہ جب،، ایس آئی آر ،، ووٹر فہرست کی نظر ثانی ہے تو پھر الیکشن کمیشن کیوں یہ کہتا ہے کہ آدھار کارڈ شہریت کا ثبوت نہیں ہے مطلب جو بات حکومت کو کہنا چاہیے وہ بات الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے اسی وجہ سے کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ موجودہ ایس آئی آر حقیقت میں چھوٹی این آر سی ہے اور الیکشن کمیشن کے ذریعے کرائی جارہی ہے -
اپوزیشن پارٹیاں ایس آئی آر کو ووٹ چوری کا طریقہ بتارہی ہیں کل ملاکر دیکھا جائے تو اس مسلے پر سیاست کی روٹی بھی سینکی جارہی ہے عوامی سطح پر جو بے چینی ہے اس بے چینی کو دور کرنے کے لئے کوئی سیاسی پارٹی میدان میں نہیں آئی جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام سیاسی پارٹیوں کے صدور و سربراہ اپنے کارکنان کو کہتے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں عوام کا ایس آئی آر فارم بھروائیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا،، ایس آئی آر میں مانگی گئی معلومات صحیح طریقے سے پر کرانا اور عوام کو بیدار کرنا سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری تھی تاکہ کسی بھی شخص کا نام ووٹر لسٹ سے کٹنے نہ پائے ،، ووٹر لسٹ میں نام شامل کرنا کرانا ہر شہری کا حق ہے اور اس عمل کو آسان بنانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے لیکن الیکشن کمیشن نے ایسا طریقہ کار اپنایا کہ ایک طرف عوام ہراساں ہے تو دوسری طرف بی ایل او تک خودکشی کرچکے ہیں ،،خود نوجوانوں نے ہی آگے آکر اپنی خدمات انجام دیں جس کے نتیجے میں جہاں عوام کے لئے کچھ آسانی ہوئی تو وہیں بی ایل او کے لئے بھی بہت آسانی ہوئی ورنہ درجنوں بی ایل او کی موت بھی ہوچکی ہے -
یہ بھی سچائی ہے کہ ایس آئی آر کو لے کر عوام کے اندر آج بھی بے چینی ہے ، تشویش ہے اس کے لبوں پر مختلف سوالات ہیں اور ان سوالوں کا تسلی بخش جواب نہیں مل رہا ہے - 

وکلاء اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ موجودہ ایس آئی آر ماضی کے ایس آئی آر سے بالکل مختلف ہے ،، یہ جلد بازی میں لیا گیا فیصلہ ہے جو ملک کی عوام کے لئے پوری طرح پریشان کن ہے آخر ایسی صورتحال کیوں پیدا کی جا رہی ہے کہ جس کے ذمے کام دیا جارہا ہے وہ خودکشی کررہا ہے ،، یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ الیکشن کمیشن کو غاصب کے طور پر دیکھ رہے ہیں ،، بہت سے سینئر وکلاء کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو شہریت کی جانچ کرانے کا کوئی اختیار نہیں لیکن پھر بھی الیکشن کمیشن نے ایسا قدم اٹھایا کہ ملک کا غریب ، مزدور، کمزور اور ضعیف طبقہ خوفزدہ ہے اور اسی وجہ سے موجود الیکشن کمیشن عوامی مقبولیت سے محروم ہے ،، آج بھی عوامی تبصرے میں سابق الیکشن کمیشن ٹی این شیشن یاد کئے جاتے ہیں اور ان کی شان میں تعریفی کلمات کہے جاتے ہیں- 
عوام ووٹ اس لئے دیتی ہے کہ جو حکومت تشکیل پائے گی وہ عوام کے لئے راحت بخش کام کرے گی اور اپوزیشن بیدار پہریدار کا کردار ادا کرے گا ،، مگر 2014 سے مرکزی حکومت نے ملک کی عوام کو الجھا کر رکھا ہے چھوٹی چھوٹی صنعتیں برباد ہوتی جارہی ہیں بیکاری اور بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے اور جب کہیں الیکشن ہوتاہے تو جذباتی نعرے لگائے جاتے ہیں مذہبی کارڈ کھیلے جاتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بیکاری اور بے روزگاری کے مسلے گم ہوجاتے ہیں ،، کاش اب سے حکومت ملک کی عوام کو سکون اور اطمینان کے ساتھ زندگی گزار نے والا طریقہ اپنائے ، جو بھی قانون بنائے وہ آسان ہو عوام کو آسانی کے ساتھ اس کا مکمل فائدہ حاصل ہو اور چھوٹی چھوٹی صنعتوں کو فروغ حاصل ہو-
       ++++++++++++++++++++++++++++
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی

Comments

Popular posts from this blog

کس کو بتاؤں حال دل بے قرار کا!! ( افسانہ) تحریر : جاوید بھارتی

ہمارے لیے علم سرمایہ ہے اور علم دین عظیم سرمایہ ہے

اب غزہ جیسی تصویریں اسرائیل سے آنے لگیں!! تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاوید اختر بھارتی