پھوڑا ہار کا ٹھکرا مسلمانوں کے سر پر! ‏تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔‌‌۔۔۔۔۔۔ ‏جاوید ‏اختربھارتی


پھوڑا ہار کا ٹھکرا مسلمانوں کے سر پر!
تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاوید اختر بھارتی 
خوشی حاصل ہو یا غمی، فائدہ ہو یا نقصان اور کامیابی حاصل ہو یا ناکامی ہر موقع پر محاسبہ کرنا ضروری ہے اب اگر خوشی، فائدہ اور کامیابی حاصل ہو تو اس کا سہرا خود اپنے سر باندھا جائے اور غمی، نقصان اور ناکامی ملے تو اس کا ٹھکرا دوسروں کے سر پر پھوڑا جائے یہ سراسر غلط ہے اور سراسر ناانصافی ہے،، مایاوتی جی! آج کے ماحول میں آپ ایک ناکام سیاستداں ہیں اور شائد آپ کو خود اس بات کا احساس بھی ہو اسی لئے آپ نے اترپردیش کے اسمبلی انتخابات 2022 میں کوئی سرگرمی بھی نہیں دکھائی آپ ووٹوں کے ٹرانسفر کی سیاست کرتی ہیں اور جب اس کا نتیجہ سامنے آیا تو آپ اپنی ناکامی کا ٹھکرا مسلمانوں کے سر پر پھوڑ رہی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ نے خود مسلمانوں سے دوری بنائی ہے، آپ نے خود مسلمانوں کو کٹر پنتھی کہا ہے اور جب مسلمانوں نے دوری بنایا تو اس میں برائی کیا ہے،، اور خود آپ کا اپنا سماج کیا ہوا 2017 میں آپ کے سماج کا ووٹ آپ کی پارٹی کو 22 فیصد ملا تھا اور اس بار یعنی 2022 کے اسمبلی انتخابات میں 10 فیصد کی مزید گراوٹ آئی تو وہ ووٹ کہاں گیا کس پارٹی کو گیا اگر آپ کے کہنے پر کسی دوسری پارٹی کو گیا ہے تو پھر پارٹی کی ناکامی کا ٹھکرا مسلمانوں کے سر پر کیوں پھوڑا جارہا ہے اور آپ مسلمانوں کو کیوں ذمہ دار ٹھہرا رہی ہیں- 

« دلت سماج» جس سماج کو کانسی رام نے بیدار کیا ،، معاف کریں گی،، دلت سماج کو بیدار کرنے میں آپ کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ کانسی رام نے دبے کچلے سماج کو سیاسی طور پر بیدار کیا اور اسی محنت اور جانفشانی کو آپ نے سکہ سمجھ لیا اور اس سکے کو بھنانا شروع کردیا جب کانسی رام لو کے تھپیڑے کھارہے تھے، دھوپ کی شدت برداشت کررہے تھے، گرمیوں میں پسینہ بہار ہے تھے، بھوک پیاس کا سامنا کررہے تھے اور سردیوں میں جب کانپتے ہوئے گلی گلی کی خاک چھان رہے تھے تب مسلمان ہی ان کے ساتھ چلتا تھا یعنی بی ایس پی کی کامیابی میں مسلمانوں کا بہت اہم کردار ہے مگر آپ کو اس بات کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہے اور نہیں تو آپ کے دور حکومت میں مسلمان دلت بستیوں میں بالخصوص آپ کے سماج کی آبادیوں اور علاقوں سے گذرتے ہوئے گھبراتے تھے کیونکہ ہریجن بنام سنوڑ کی آڑ میں مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہوتی تھی اور مسلمان جیلوں میں بند ہوتا تھا اس کے گھر کے چولہے میں کئی کئی دن تک آگ نہیں جلتی تھی پورا کنبہ فکر مند رہتا تھا اور آنکھوں سے آنسو بہاتا تھا آپ نے اپنے سماج کے لئے بہت کچھ کیا ہمیں کوئی اعتراض نہیں مگر اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد کسی سماج، کسی مذہب اور کسی برادری کے ساتھ ناانصافی، تعصب، سوتیلا سلوک اور طاقت پر گھمنڈ یہ سراسر غلط ہے اور اس طرح کا غلط کام کرنے کی اجازت ہمارے ملک کا آئین بھی نہیں دیتا ہے اور جو آئین کی خلاف ورزی کرے گا تو اسے آج نہیں تو کل خمیازہ بھگتنا ہی پڑے گا- 
ہم نے مانا کہ دلت اور مسلمان ایک ساتھ آئے ہوتے تو بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روکا جاسکتا تھا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے دلت اور مسلمان کو قریب کرنے کی کوشش کب کی ہے آپ نے جب سے بی ایس پی کی کمان سنبھالی ہے تب سے آج تک کبھی بھی دلت اور مسلمان کو ایک ساتھ چلنے کے لئے کوئی پیغام نہیں دیا ہے بلکہ جب بھی آپ اقتدار میں آئیں ہیں تو یہی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ میں صرف اور صرف اپنے سماج کی بدولت اقتدار پر قابض ہوئی ہوں ،، یہاں تک کہ دلت زمرے میں آنے والی دیگر برادریوں کو بھی آپ نے نظر انداز کیا اور صرف اپنے سماج کے لئے کام کیا اور اپنے سماج کا نام لیا،، جبکہ ہندوستان کل مذاہب سنگم ہے، کل سماج سنگم ہے اور کل برادری سنگم ہے اور اس سنگم کی خوبصورتی کے لئے ضروری ہے کہ سب کا ساتھ رہے، سب کا اعتماد حاصل رہے،، اور سب کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ سب کو برابری کا درجہ دیا جائے سب کے جذبات کی ترجمانی کی جائے کامیابی حاصل ہونے کے بعد سب کا شکریہ ادا کیا جائے- 
مایا وتی جی آپ نے 2022 کے اسمبلی انتخابات کے اختتام پر جو بیان دیا ہے اس بیان کو خود ایک بار سنجیدگی کے ساتھ سنیں اور دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کریں کہ کیا آپ نے پانچ سال میں ایسی کوئی کوشش کی ہے اور ایسا کوئی کام کیا ہے شائد آپ کو خود احساس ہوجائے کہ نہیں ہم نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے کہ دلت مسلم ساتھ ساتھ چلے اور جب نہیں کیا ہے تو پھر یہ جان لیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کسی سیاسی پارٹی سے یا لیڈر سے دشمنی نہیں ہے ہاں نظریاتی اختلاف ہے اور اس نظریاتی اختلاف کے بیچ سے جس پارٹی سے کچھ امید کی کرن نظر آتی ہے اس پارٹی کو مسلمان ووٹ دیتا ہے اور آپ کو بھی دیا ہے جس کے نتیجے میں آپ وزیر اعلیٰ بن چکی ہیں لیکن آپ نے بھی مسلمانوں کو کرکٹ کے میدان کا بارہواں کھلاڑی سمجھا مگر آج آپ غور کریں کہ اس بارہویں کھلاڑی کی کی اہمیت کیا ہے ہم ہندوستانی مسلمانوں کے اندر مفاد پرستی نہیں ہے ہمارے ساتھ کوئی اچھا کام کرتا ہے تو ہم اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں بلکہ ہمارے حق میں کوئی بول دیتا ہے تو ہم خوش ہو جاتے ہیں- 
«قارئین کرام» آپ کے لئے بھی راقم کا مشورہ ہے کہ جیسے شاہراہوں پر، چوراہوں پر اور چائے خانوں میں بیٹھ کر بحث و مباحثہ کرتے ہو تو ایسے ہی جب تمہارے درمیان کوئی کوئی سیاسی لیڈر آتا ہے تو اس سے بھی سوال و جواب کرنے کی اپنے اندر عادت ڈالو، اپنے سماج کے مسائل پر گفتگو کرو اور اس سے پوچھو کہ کامیابی حاصل ہونے کے بعد آپ کی ترجیحات کیا ہوں گی اور آپ ہمارے سماج کے لئے کیا کریں گے اس طرح کے سوالات بہت ضروری ہیں کیونکہ یہی بات ہمارے اندر نہ ہونے کی وجہ جو پارٹی شکست کھاتی ہے تو ہمیں ذمہ دار ٹھہراتی ہے اور ساتھ ہی جو پارٹی ہمارا ووٹ پاتی بلکہ ہمارے ہی بلبوتے پر جس پارٹی کا وجود تک بچتا ہے تو وہ بھی ہماری شکرگزار نہیں ہوتی علاوہ ازیں اسمبلی انتخابات اختتام پذیر ہوتے ہی ایم ایل سی کا انتخاب کا موقع آتا ہے تو صرف دو مسلم امیدواروں کی شکل میں ہاتھوں میں جھنجھنا تھما دیا جاتا ہے اور خود اپنے سماج کے لوگوں کو یعنی چودہ امیدوار یادو برادری کو بنایا جاتا ہے 16 فیصد بیک ورڈ مسلمانوں کی آبادی لیکن ایک بھی ایم ایل سی امیدوار نہیں اور 13 فیصد انصاری برادری کی آبادی لیکن ایک بھی امیدوار نہیں یعنی ہم صرف نعرہ لگائیں اور ووٹ دیں اور جب عہدہ، سہولت کا موقع آئے تو چچا جان رہیں گے اور 6 سے 7 فیصد والا اپنا یادو سماج رہے گا- 
« یاد رکھیں» موجودہ وقت میں کانگریس کی خستہ حالی سبھی سیاسی پارٹیوں کے لئے سبق آموز ہے تو بی ایس پی کی خستہ حالی باالخصوص سماجوادی پارٹی کے لئے سبق آموز ہے، نصیحت آموز ہے،، بس سمجھنے کے لئے اشارہ ہی کافی ہے-
Javed Akhtar Bharti
                ++++++++++++++++++++++++ 
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی 

Comments

Popular posts from this blog

شیخ الحدیث علامہ محمد سلیمان شمسی رحمۃ اللہ علیہ ایک مایہ ناز ہستی! تحریر* جاوید اختر بھارتی

حج عبادت بھی، رکن اسلام بھی، اور پیغام اتحاد و مساوات بھی!!! تحریر: جاوید اختر بھارتی

ضمیر کا دخل بہت بڑی چیز ہے تحریر! جاوید:اختر بھارتی